شمالی افغانستان میں طالبان زور پکڑتے ہوئے
22 اکتوبر 2014شمالی افغانستان میں قندوز سے خبر ایجنسی روئٹرز نے اپنی ایک خصوصی رپورٹ میں لکھا ہےکہ طالبان شدت پسند آہستہ آہستہ لڑکیوں کے لیے تعلیم کے موضوع پر بھی اپنے موقف میں تبدیلی لا رہے ہیں۔ روئٹرز کے مطابق قندوز کے سات اضلاع میں سے دو ایسے ہیں جن پر طالبان کا کنٹرول ہے۔ اس رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ طالبان کی یہ کوششیں اس لیے زیادہ ہوتی جا رہی ہیں کہ سال رواں کے آخر تک افغانستان سے اتحادی دستے رخصت ہو جائیں گے۔ ان غیر ملکی جنگی دستوں کے انخلاء کی تیاریاں طویل عرصے سے جاری ہیں۔
نیوز ایجنسی روئٹرز نے طالبان کے بڑھتے ہوئے اثر و رسوخ کی کئی مثالیں بھی دی ہیں۔ ان میں سے ایک مثال سردار نامی ایک ایسے 23 سالہ افغان نوجوان کی ہے جو صوبے قندوز میں حجام کے طور پر اپنے بھائی کے دکان پر کام کرتا ہے۔ سردار کا کہنا ہے کہ اس کے خاندان کا زمین کی ملکیت سے متعلق ایک تنازعہ کئی سال سے حل طلب تھا۔ اس نے مقامی حکام سے اپنے لیے انصاف طلب کیا تو اس سے رشوت کی ادائیگی کا مطالبہ کیا گیا۔
پھر طویل عرصے تک اپنے ارادوں میں ناکام رہنے کے بعد سردار نے طالبان کے مقامی عہدیداروں سے رابطہ کیا۔ طالبان افغانستان کے وہی اسلام پسند جنگجو ہیں جنہیں 13 سال قبل اتحادی فوجوں نے اقتدار سے نکال باہر کیا تھا۔ اس کے بعد سے طالبان افغانستان میں غیر ملکی اتحادی فوجوں کے خلاف اپنی جدوجہد مسلسل جاری رکھے ہوئے ہیں۔
23 سالہ افغان نوجوان سردار کے مطابق جب اس نے طالبان سے مدد مانگی تو وہ چہار درہ میں اس کے خاندانی گھر پر آئے اور پھر دو ہی دنوں میں جائیداد سے متعلق تنازعہ حل بھی ہو گیا تھا۔
روئٹرز کے مطابق سردار اور اس کی طرح کے کئی دیگر افغان شہریوں کی زندگی کے ایسے ہی واقعات کابل حکومت، امریکا اور نیٹو کی قیادت کی آنکھیں کھولنے کے لیے کافی ہیں۔ امریکا، نیٹو اور کابل حکومت نے اس مقصد کے لیے اربوں ڈالر خرچ کیے اور ہزاروں انسانی جانوں کی قربانی بھی دی کہ کسی طرح بدامنی کا شکار ملک افغانستان اس سال کے اختتام پر غیر ملکی جنگی دستوں کے انخلاء کے وقت تک ایک پر امن جمہوریت بن جائے۔ قندوز میں مقامی حکام کے مطابق سات میں سے دو اضلاع مکمل طور پر طالبان کے کنٹرول میں ہیں۔ ان میں چہار درہ کا ضلع بھی شامل ہے۔
ان حکام کے مطابق افغانستان کے دیگر علاقوں میں بھی طالبان عسکریت پسندوں کی طاقت اور اثر و رسوخ میں اضافہ اس لیے بھی ہو رہا ہے کہ ملک کے کئی حصوں میں ریاست کی حاکمیت نہ ہونے کے برابر ہے اور افغان باشندے حکومتی اہلکاروں کو زیادہ تر بد اعتمادی کی نگاہ سے بھی دیکھتے ہیں۔
اس بارے میں امریکا کی قیادت میں اتحادی دستوں کے اعلیٰ کمانڈروں کا کہنا ہے کہ طالبان نے حال ہی میں جن دو اضلاع کو اپنے کنٹرول میں لے لیا، وہ ان عسکریت پسندوں کی محض عارضی پیش قدمی کا نتیجہ ہے۔ افغانستان میں اتحادی دستوں کے کمانڈر، جنرل جان کیمبل نے اسی مہینے صحافیوں کو بتایا تھا کہ ایسا ہو سکتا ہے کہ طالبان عسکریت پسند کسی ضلع کے ایک حصے یا کسی دوسری جگہ پر قبضہ کر لیں، لیکن ’یہ پیش قدمی صرف عارضی نوعیت ہی کی ثابت ہو گی‘۔