1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

جنوبی سوڈان میں فائر بندی کی ڈیل طے پا گئی

عاطف بلوچ10 مئی 2014

جنوبی سوڈان کے صدر سلوا کیر اور باغی رہنما ریک مچار نے فائر بندی کے معاہدے پر دستخط کر دیے ہیں۔ اس افریقی ملک میں نسلی بنیادوں پر شروع ہونے والے تشدد سے ایک بحرانی صورت حال پیدا ہو گئی تھی۔

https://p.dw.com/p/1BxOj
تصویر: Reuters

شدید عالمی دباؤ کے نتیجے میں طے پانے والے اس فائر بندی کے معاہدے کے تحت جنوبی سوڈان میں ایک عبوری حکومت تشکیل دینے پر اتفاق رائے ہوا ہے۔ جمعے کے دن صدر سلوا کیر اور ان کے سابق نائب اور باغی رہنما ریک مچار نے براہ راست ملاقات میں عہد کیا کہ وہ ملک کو بحران سے نکالنے کے لیے مؤثر اقدامات کریں گے۔ جنوبی سوڈان میں گزشتہ برس دسمبر میں شروع ہونے والے تنازعے کے بعد ان دونوں رہنماؤں کی یہ پہلی براہ راست ملاقات تھی۔

خبر رساں ادارے روئٹرز نے ادیس ابابا سے موصول ہونے والی اطلاعات کے حوالے سے بتایا ہے کہ سلوا کیر اور ریک مچار نے مصافحہ کیا اور اکٹھے عبادت کی۔ ایتھوپیا کے دارالحکومت میں منعقد ہوئی ایک تقریب کے دوران فائر بندی کے معاہدے پر دستخط کرنے کے بعد سلوا کیر نے کہا، ’’ہمارے مسائل کے حل کے لیے مذاکرات بہترین راستہ ہے۔‘‘ صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے ان کا مزید کہنا تھا کہ وہ درست سمت کی طرف بڑھتے رہیں گے۔

Rebellen ethnische Massaker in Südsudan
اقوام متحدہ کے مطابق نائجیریا میں ہزاروں افراد ہلاک جب کہ ایک ملین سے زائد اپنا گھر بار چھوڑنے پر مجبور ہوئے ہیںتصویر: AFP/Getty Images

اگرچہ ابھی تک یہ واضح نہیں ہے کہ عبوری حکومت کس طرح تشکیل دی جائے گی اور اس میں کون کون شامل ہو گا تاہم سلوا کیر اور ریک مچار نے متفقہ طور پر کہا ہے کہ جنوبی سوڈان کو بحرانی صورت حال سے نکالنے کے لیے ایک عبوری حکومت کا قیام ناگزیر ہے، جو آئندہ برس انتخابات کا انعقاد کرے گی۔

علاقائی گروپ IGAD کے اعلیٰ مذاکرت کار صیوم میسفن نے میڈیا کو بتایا ہے کہ فائر بندی معاہدے پر چوبیس گھنٹوں کے اندر اندر عملدرآمد شروع کر دیا جائے گا جب کہ اطراف اشتعال انگیزی سے باز رہیں گے۔ عالمی دباؤ کے بعد ریک مچار اور سلوا کیر کے مابین شروع ہونے والے ان براہ راست امن مذاکرات میں اسی علاقائی گروپ نے ثالثی کا کام کیا ہے۔

یہ امر اہم ہے کہ جنوبی سوڈان کے ان دونوں رہنماؤں کے مابین رواں برس جنوری میں بھی فائر بندی کا ایک معاہدہ طے پایا تھا لیکن وہ دیر پا ثابت نہ ہو سکا تھا۔ اس وقت ان دونوں مسیحی رہنماؤں نے تشدد کے لیے ایک دوسرے پر الزام عائد کیا تھا۔ بعدازاں امریکی وزیر خارجہ جان کیری کے علاوہ اقوام متحدہ کے سربراہ بان کی مون نے جنوبی سوڈان کا دورہ کیا تھا، جس میں انہوں نے زور دیا تھا کہ وہاں جاری فسادات کو روکنے کے لیے عبوری حکومت تشکیل دی جائے اور مکمل فائر بندی پر متفق ہوا جائے۔

اقوام متحدہ کی ایک رپورٹ کے مطابق جنوبی سوڈان میں گزشتہ چھ ماہ سے جاری ان فسادات کے دوران سلوا کیر اور ریک مچار دونوں کے ہی حامی قتل، آبروریزی اور جنسی نوعیت کی دیگر زیادتیوں میں ملوث رہے ہیں۔ اس تشدد کو دیکھتے ہوئے وہاں بڑے پیمانے پر نسل کشی کے واقعات کے خدشات پیدا ہو گئے تھے۔ دارالحکومت جوبا سے شروع ہونے والے ان پرتشدد واقعات نے پورے ملک کو اپنی لپیٹ میں لے لیا تھا اور اس دوران اقوام متحدہ کے مطابق ہزاروں افراد ہلاک جب کہ ایک ملین سے زائد اپنا گھر بار چھوڑنے پر مجبور ہوئے۔