جنوبی سوڈان کے صدر براہ راست بات چیت شروع کریں: کیری
3 مئی 2014خانہ جنگی کی صورت حال کا سامنا کرنے والے ملک جنوبی سوڈان کے دارالحکومت جُوبا میں جان کیری نے ملکی صدر سلوا کیر سے جمعے کے روز ملاقات کے دوران مشورہ دیا کہ وہ خانہ جنگی کے حالات کو ختم کرنے کے لیے اپوزیشن رہنما ریک مَچار سے براہ راست گفتگو کریں۔ دوسری جانب باغیوں کے رہنماؤں پر بھی بین الاقوامی دباؤ بڑھتا جا رہا ہے کہ وہ مذاکراتی عمل میں شریک ہوں تا کہ بحرانی حالات کے خاتمے کے لیے امن و سلامتی کی صورت نکل سکے۔
اسی تناظر میں جان کیری نے سلوا کیر حکومت کے مخالف اور باغیوں کے کمانڈر ریک مَچار سے ٹیلی فون پر بات کی۔ ریک مَچار نے امریکی وزیر خارجہ سے گفتگو کے دوران مذاکرات میں شریک ہونے کا عندیہ بھی دیا۔ مَچار کی جانب سے یہ نہیں بتایا گیا کہ وہ کب مذاکرات میں شریک ہوں گے۔ ماضی میں بھی سلوا کیر کے مخالف لیڈر مَچار مسلسل مذاکرات میں شریک ہونے کے دعوے کرتے رہے ہیں۔
جُوبا میں صدر سلوا کیر سے ملاقات کے بعد امریکی وزیر خارجہ نے صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ گزشتہ مہینوں کے دوران اس ملک میں بے شمار انسانی جانوں کا ضیاع عالمی برادری کے لیے ناقابلِ قبول ہے۔ کیری نے اپنی پریس بریفنگ میں اس کا بھی انکشاف کیا کہ موجودہ حالات کی وجہ سے اگلے مہینوں میں جنوبی سوڈان کو قحط کا سامنا ہو سکتا ہے۔ مقامی حکام کے مطابق نیوز بریفنگ میں کیری نے انتباہی انداز میں واضح کیا کہ اگر حالات بدستور یونہی رہے تو سلوا کیر اور ریک مَچار کو پابندیوں کا سامنا ہو سکتا ہے۔
صحافیوں سے بات چیت کرتے ہوئے جان کیری نے واضح کیا کہ صدر سلوا کیر اپوزیشن لیڈر سے مذاکرات کرنے کے لیے ادیس ابابا جانے کے لیے تیار ہیں۔ جنوبی سوڈان کے متحارب گروپوں کے درمیان مذاکرات ایتھوپیا کے دارالحکومت ادیس ابابا میں ہوتے رہے ہیں۔ کیری نے اپوزیشن لیڈر مَچار سے مخاطب ہوتے ہوئے کہا کہ وہ بھی اِس مذاکراتی عمل میں شامل ہوں اور یہ عمل جلد از جلد شروع کیا جائے۔ کیری نے مذاکراتی عمل اگلے ہفتے کے دوران شروع کیے جانے کی خواہش کا بھی اظہار کیا۔
جنوبی سوڈان میں گزشتہ برس پندرہ دسمبر سے شروع ہونے والا سیاسی بحران رفتہ رفتہ سارے ملک میں خانہ جنگی کی صورت اختیار کر گیا۔ اس دوران سینکڑوں شہری قتل ہوئے اور لاکھوں افراد کو بے گھری کا سامنا کرنا پڑا۔ صدر سلوا کیر نے ریک مَچار پر الزام لگایا کہ وہ اُن کی حکومت گرانے کی منصوبہ بندی کر رہے تھے۔ اس دوران مَچار دارالحکومت جُوبا سے فرار ہو کر باغیانہ سرگرمیوں میں شریک ہو گئے۔ مَچار کا کہنا ہے کہ سلوا کیر اپنے مخالفین کو ہلاک کرنا چاہتےتھے۔ گزشتہ چار ماہ کے دوران پیدا ہونے والی مسلح اور خونی صورت حال کے دوران متحارب قبائلی آبادیوں کے قتلِ عام، خواتین کی آبروریزی اور بچوں کی جنگجوؤں کے طور پر جبری بھرتی کا عمل بھی شروع ہو گیا۔