1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

ریک مچار اور سلوا کیر کی براہ راست ملاقات

کاترین ماتھائی / کشور مصطفیٰ9 مئی 2014

امریکی وزیر خارجہ جان کیری کے مطابق صدر سلوا کیر ایک عبوری حکومت کے قیام کے لیے بات چیت پر رضامند ہیں۔

https://p.dw.com/p/1BxCr
تصویر: DW/J.-P.Scholz/A.Kriesch

جنوبی سوڈان کے صدر سلوا کیر کل جمعرات کو ایتھوپیا کے دارالحکومت ادیس ابابا پہنچے تھے۔ وہاں وہ آج جمعے کو باغیوں کے لیڈر ریک مچار کے ساتھ گزشتہ دسمبر سے جاری خونی تنازعے کے دوران پہلی بار روبرو مذاکرات کریں گے۔ ریِک مچار حکومتی فورسز کی پیش قدمی کے خوف سے اور اپنے تحفظ کی خاطر جنوبی سوڈان اور ایتھوپیا کے درمیان سرحدی علاقے میں کہیں قیام پذیر ہیں۔ اس علاقے سے ادیس ابابا کوئی 500 کلو میٹر کے فاصلے پر ہے۔ انہوں نے پہلے ہی انتباہ کر دیا تھا کہ اُن کی آمد میں کچھ تاخیر ہو سکتی ہے۔

اب تک ہزاروں جنوبی سوڈانی باشندے مارے جا چکے ہیں، کسی حد تک انتہائی بہیمانہ انداز میں۔ قریب ایک ملین انسان گھر بار سے محروم پناہ کی تلاش میں ہیں۔ جنوبی سوڈان کی صورتحال گزشتہ پانچ ماہ سے تشویش ناک حد تک خراب ہو چکی ہے۔ گزشتہ جولائی میں کیر نے مچار کو نائب صدر کے عہدے سے برطرف کر دیا تھا۔

یہ اقدام دونوں کے مابین دیرینہ سیاسی رقابت کی جلتی آگ پر تیل ثابت ہوا اور اس کے نتییجے میں دسمبر 2013ء میں مسلح جھڑپوں کا جو آغاز ہوا اُس میں ہزاروں افراد لقمہ اجل بن چکے ہیں۔ تب سے جنوبی سوڈان میں شاید ہی کوئی دن ان دو لیڈروں کی سربراہی والے دو نسلی گروپوں کے مابین خونریز جھڑپوں کے بغیر گزرتا ہو۔

US-Außenminister Kerry mit Südsudans Präsident Salva Kiir Mayardit
گزشتہ جمعے کو جان کیری نے سلواکیر سے ملاقات کی تھیتصویر: Saul Loeb/AFP/Getty Images

ایمنسٹی انٹرنیشنل نے اپنی ایک تازہ رپورٹ میں سلوا کیر اور ریک مچار دونوں پر شہریوں کو ہدف بنا کر اُن پر حملے کرنے کا الزام عائد کیا ہے۔ اس رپورٹ میں ایمنسٹی کی مشرقی افریقہ کے امور کی نگراں میشل کاگاری نے کہا ہے، ’’بچوں اور حاملہ خواتین کو تشدد کا نشانہ بنایا گیا ہے۔ بوڑھے اور بیمار افراد کو ہسپتالوں کے بستروں پر گولیاں مار کر ہلاک کیا گیا۔‘‘

سلوا کیر اور ریک مچار کے مابین مذاکرات سے بڑی توقعات وابستہ کی جا رہی ہیں۔ مثلاً یہ کہ یہ دونوں تشدد کے خاتمے کی کوشش کریں گے، متاثرہ انسانوں کو ضروری امدادی اشیاء کی فراہمی کے لیے ایک کوریڈور کا قیام عمل میں آ سکے گا اور یوں جنوبی سوڈان کے بحران کا سیاسی حل نکالا جا سکے گا۔

امریکی وزیر خارجہ جان کیری کے مطابق صدر سلوا کیر ایک عبوری حکومت کے قیام کے لیے بات چیت پر رضامند ہیں۔ یہ بات کیری نے گزشتہ جمعے کو اپنے جنوبی سوڈان کے دورے کے بعد کہی تھی۔ شمال مشرقی افریقہ کے ایک ترقیاتی ادارے IGAD سے تعلق رکھنے والے کینیا کے مذاکرات کار لازارو زُمبیوو نے ڈوئچے ویلے کے ساتھ بات چیت کرتے ہوئے کہا، ’’ان دونوں لیڈروں کی ملاقات نہایت مثبت قدم ہے کیونکہ اس جنگ کا خاتمہ اور جنوبی سوڈان میں سیاسی مکالمت شروع کرنے کے اہل صرف یہی دونوں ہیں۔‘‘

Südsudan Riek Machar Vize-Präsident
ریک مچارتصویر: Reuters

اقوام متحدہ کے سکریٹری جنرل بان کی مون نے بھی دونوں لیڈروں کے ان مذاکرات کی کامیابی کے بارے میں خوش امیدی کا اظہار کیا ہے۔ بان کی مون گزشتہ منگل کو جنوبی سوڈان کے دورے پر تھے جس دوران انہوں نے اپنے بیان میں کہا تھا، ’’ہم امید کر رہے ہیں کہ جنوبی سوڈان میں جلد از جلد امن قائم ہو، ساتھ ہی سیاسی اور عسکری قیادت سے میرا یہ مطالبہ ہے کہ وہ شہریوں کو غیر مشروط تحفظ فراہم کریں۔‘‘

دریں اثناء جنوبی سوڈان کے ایک شمالی شہر مالاکال میں حالیہ کشیدگی سے پہلے 18 ہزار شہریوں نے وہاں اقوام متحدہ کے مقامی فوجی کیمپ میں پناہ حاصل کی۔ تاہم اس کیمپ میں محض چند سو افراد کے لیے قیام کا بندوبست تھا۔ اتنی بڑی تعداد کے لیے پینے کے صاف پانی کی قلت سے لے کر حفظان صحت کے انتظامات تک کی صورتحال ناگفتہ بہ ہو چکی ہے۔ حالات کے پیش نظر اقوام متحدہ اپنی آٹھ ہزار سات سو فوجیوں پر مشتمل فورس کی نفری میں توسیع چاہتا ہے تاہم جنوبی سوڈان کی فوج اس کی مخالفت کر رہی ہے۔