1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

نائجیریا، اسکول کی بچیاں بازیاب کرا لی گئیں

عاطف بلوچ17 اپریل 2014

نائجیریا کے فوجی حکام نے کہا کہ اسلام پسندوں کی طرف سے اغوا کی جانے والی اسکول کی طالبات کو بازیاب کرا لیا گیا ہے۔ منگل کی صبح شدت پسندوں نے ایک ہائی اسکول سے سو سے زائد بچیوں کو اغوا کر لیا تھا۔

https://p.dw.com/p/1Bjrp

خبررساں ادارے اے پی نے ابوجہ سے موصول ہونے والی اطلاعات کے حوالے سے بتایا ہے کہ 129 طالبات کو اغوا کیا گیا تھا، جن میں سے اب صرف آٹھ لاپتہ ہیں۔ فوجی دستے ابھی تک اغوا کاروں کے تعاقب میں ہیں تاکہ باقی بچیوں کو بھی ان کے چنگل سے بچایا جا سکے۔ بتایا گیا ہے کہ ان بچیوں کی بازیابی کے لیے ملکی فوج کی طرف سے کیے گئے آپریشن میں ایک اغوا کار کو گرفتار بھی کر لیا گیا ہے۔ اعلیٰ فوجی اہلکار میجر جنرل کرِس اولوکولادے نے اے پی کو بتایا ہے کہ جمعرات کی رات ان لڑکیوں کو بازیاب کرا لیا گیا تاہم انہوں نے اس بارے میں زیادہ معلومات فراہم نہیں کیں۔

Abuja Bombenanschlag 14.4.2014
اغوا کی اس ورادات سے ایک روز قبل ہی ابوجہ میں ہوئے ایک خونریز بم دھماکے میں 75 افراد ہلاک ہوگئے تھےتصویر: imago/Xinhua

بورنو ریاست کے ایک اعلیٰ حکومتی عہدیدار قاسم شہتیما نے جمعرات کو صحافیوں کو بریفنگ دیتے ہوئے کہا کہ ایک سو انتیس طالبات کو اغوا کیا گیا تھا، جن میں سے چودہ موقع سے فائدہ اٹھاتے ہوئے خود ہی بچ نکلی تھیں۔ انہوں نے بتایا کہ جب اغوا کار ان بچیوں کو ایک ٹرک پر نامعلوم مقام پر لے جا رہے تھے تو چار بچیاں چلتے ٹرک سے چھلانگ لگا کر فرار ہوئیں جبکہ دس اس وقت اغوا کاروں کے نرغے سے نکلنے میں کامیاب ہوئیں، جب انہوں نے آرام کے وقت ان بچیوں کو کھانا پکانے کا کہا اور ان پر نظر نہ رکھی۔

شہتیما نے بتایا کہ یہ اغوا کار فوجی لباس میں ملبوس تھے۔ جب وہ چیبوک میں واقع لڑکیوں کے ایک ہائی اسکول پہنچے تو انہوں نے پرنسپل کو کہا کہ سکیورٹی کی وجہ سے ان بچیوں کو محفوظ مقامات پر منتقل کرنا ضروری ہے۔ شہتیما نے تفصیل بیان کرتے ہوئے کہا کہ اسکول کا پرنسپل ان اغوا کاروں کی باتوں میں آ گیا اور تمام لڑکیوں کو ایک ٹرک میں بیٹھا دیا گیا۔ ان بچیوں کی عمریں سولہ سے اٹھارہ برس کے درمیان تھیں۔

قاسم شہتیما کے بقول جب فوجی وردی میں ملبوس یہ شدت پسند ٹرک لے کر روانہ ہوئے اور انہوں نے ہوائی فائرنگ کی تو پرنسپل کو احساس ہوا کہ اس نے غلطی کر دی ہے۔ اسی دوران ان جنگجوؤں نے فائرنگ کرتے ہوئے اسکول کی حفاظت پر مامور ایک فوجی اور ایک پولیس اہلکار کو ہلاک بھی کر دیا۔ حکام کے مطابق حملے کی یہ حکمت عملی بوکو حرام کا ایک مخصوص انداز ہے۔ بوکو حرام مغربی تعلیم کے خلاف ہے، اسی لیے ماضی میں اپنے حملوں میں متعدد تعلیمی اداروں کو نشانہ بنا چکا ہے، جس کے نتیجے میں درجنوں طالب علم مارے بھی جا چکے ہیں۔

اغوا کی اس ورادات سے ایک روز قبل ہی ابوجہ میں ہوئے ایک خونریز بم دھماکے میں 75 افراد ہلاک ہوگئے تھے۔ اس حملے کی ذمہ داری بھی بوکو حرام کے جنگجوؤں نے قبول کی تھی۔ اسی طرح منگل کی رات اور بدھ کی صبح ہوئے دو مزید دھماکوں میں بیس افراد ہلاک ہو گئے تھے۔ ان تازہ حملوں نے بالخصوص ابوجہ کے شہریوں کو برہم کر دیا ہے۔ انہوں نے ایسے حکومتی دعوؤں کو چیلنج کیا ہے کہ حکومت اسلام پسندوں کی اس پانچ سالہ پرانی بغاوت کے خلاف مؤثر اقدامات کر رہی ہے۔

یہ امر اہم ہے کہ نائجیریا میں فعال کالعدم اسلامی تحریک بوکو حرام ملک میں اسلامی قوانین کا نفاذ چاہتی ہے۔ اس شدت پسند گروہ کی طرف سے رواں برس کیے جانے والے متعدد حملوں میں مجموعی طور پر پندرہ سو افراد ہلاک ہو چکے ہیں۔ سال 2010 تا 2013ء ایسے حملوں میں ہلاک ہونے والوں کی تعداد 36 سو تھی۔

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں

اس موضوع سے متعلق مزید