میانمار روہنگیا مسلمانوں کے حقوق کا تحفظ کرے، اوباما
31 اکتوبر 2014باراک اوباما نے جمعرات کو میانمار کے صدر تھین سین اور اپوزیشن رہنما آنگ سان سوچی سے علیحدہ علیحدہ ٹیلی فون پر بات کی ہے۔ وائٹ ہاؤس کے مطابق اس دوران انہوں نے میانمار ميں سیاسی اصلاحات اور نسلی کشیدگی کے مسئلے کو حل کرنے کی ضرورت پر بات کی۔
امریکی صدر نومبر کے وسط میں میانمار کا دورہ کرنے والے ہیں۔ بطور صدر یہ وہاں کے لیے ان کا دوسرا دورہ ہو گا۔ وہ وہاں مختلف علاقائی نشستوں میں شریک ہوں گے۔
وہ ایسے وقت میانمار جا رہے ہیں جب وہاں انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں پر امریکی تحفظات میں اضافہ ہو رہا ہے۔ انسانی حقوق کی ان زیادتیوں میں صحافیوں کی گرفتاریاں اور روہنگیا مسلمانوں اور دیگر نسلی اقلیتوں پر مبینہ مظالم شامل ہیں۔
میانمار کے صدر سے فون پر بات چیت میں اوباما نے زور دیا کہ ان کی حکومت راکھین صوبے میں کشیدگی اور انسانی بحران پر قابو پانے کے لیے اضافی کوششیں کرے۔ انہوں نے یہ بھی کہا کہ روہنگیا مسلمانوں کے شہری اور سیاسی حقوق کی حمایت کے لیے بھی اقدامات کیے جانے چاہییں۔
وائٹ ہاؤس کے بیان کے مطابق صدر اوباما نے تھین سین اور ان کی حکومت کی جانب سے امن عمل کے لیے دکھائی جانے والی سنجیدگی کا خیر مقدم کیا۔
میانمار کے صوبے راکھین میں 2012ء میں راکھین بدھوں اور روہنگیا مسلمانوں کے درمیان فسادات پھُوٹ پڑے تھے۔ اس کے نتیجے میں کم از کم دو سو افراد ہلاک اور ایک لاکھ چالیس ہزار بے گھر ہو گئے تھے جن میں سے بیشتر کا تعلق روہنگیا کمیونٹی سے تھا۔
وائٹ ہاؤس کے مطابق آنگ سان سوچی کے ساتھ ٹیلی فون پر بات چیت میں امریکی صدر نے میانمار میں سیاسی اور اقتصادی اصلاحات پر تبادلہ خیال کیا۔
اوباما کی میانمار کے رہنماؤں سے یہ ٹیلی فونک گفتگو ایسے وقت ہوئی جب جمعے کو تھین سین اور فوجی سربراہ سیاسی جماعتوں اور نسلی اقلیتی گروپوں کے ساتھ ایک غیر معمولی اعلیٰ سطحی اجلاس میں شریک ہو رہے ہیں۔
میانمار میں اس نوعیت کا یہ پہلا اجلاس ہو گا۔ اس موقع پر آنگ سان سوچی پہلی مرتبہ فوج کے سربراہ سینئر جنرل مِن آنگ ہولنگ سے ملاقات کریں گی۔
خیال رہے کہ سوچی تقریباﹰ پندرہ برس قید یا نظر بند رہ چکی ہیں جبکہ سابق فوجی حکومت نے انہیں انتخابات میں حصہ لینے سے بھی روک رکھا تھا۔ انہیں نومبر 2010ء میں ہونے والے انتخابات کے بعد رہا کیا گیا تھا۔