میانمار میں ہزاروں قیدی رہا
7 اکتوبر 2014ان قیدیوں کو اگلے مہینے ملک میں ایک اہم علاقائی سربراہی کانفرنس سے قبل رہا کیا گیا ہے۔ ینگون سے ملنے والی نیوز ایجنسی ایسوسی ایٹڈ پریس کی رپورٹوں کے مطابق میانمار کی وزارت اطلاعات نے ان 3073 قیدیوں کی رہائی کے حوالے سے ملکی صدر کی طرف سے معافی کے فیصلے کا اعلان آج اپنی ویب سائٹ پر کیا۔ ان قیدیوں کو نومبر میں میانمار ہی میں ہونے والی ایشیا بحرالکاہل کے خطے کے رہنماؤں کی اس کانفرنس سے قریب ایک مہینہ قبل رہا کیا گیا ہے، جس میں متوقع طور پر امریکی صدر باراک اوباما بھی شرکت کریں گے۔ اس سربراہی کانفرنس جنوب مشرقی ایشیا کے خطے سے باہر کی ریاستوں کے متعدد رہنما بھی حصہ لیں گے۔
نیوز ایجنسی ایسوسی ایٹڈ پریس نے لکھا ہے کہ میانمار کی وزارت اطلاعات کی ویب سائٹ پر کیے گئے اعلان کے مطابق صدر تھین سین نے ملک میں ’امن، استحکام اور قانون کی حکمرانی کو فروغ دینے کے لیے‘ قریب تین ہزار ایک سو قیدیوں کی سزائیں معاف کر دی ہیں۔ اس وزارتی ویب سائٹ کے مطابق ہزاروں قیدیوں کی یہ رہائی انسانی بنیادوں پر عمل میں آئی۔
وزارت اطلاعات نے قیدیوں کے لیے اس معافی اور ان کی رہائی کا ذکر کرتے ہوئے خاص طور پر سیاسی قیدیوں کا علیحدہ سے کوئی ذکر نہیں کیا۔ مختلف خبر ایجنسیوں کی رپورٹوں کے مطابق جن قیدیوں کو رہا کیا گیا ہے، ان میں سے زیادہ تر ایسے افراد تھے جو معمولی جرائم کے ارتکاب کی وجہ سے مختلف مدت کی قید کی سزائیں کاٹ رہے تھے۔
میانمار میں سیاسی قیدیوں کے معاملات کا جائزہ لینے والی سرکاری کمیٹی کے بیان کے مطابق منگل سات اکتوبر کو جن قیدیوں کو رہا کیا گیا، ان میں کم از کم 13 ایسے افراد بھی شامل ہیں، جو سیاسی نوعیت کے مختلف جرائم کی وجہ سے قید کاٹ رہے تھے۔ اس کے علاوہ کم از کم آٹھ قیدی ایسے بھی تھے جو ملکی فوج کے خفیہا دارے کے سابق اعلیٰ اہلکار تھے۔ انہیں 2004ء میں ملٹری انٹیلیجنس کے سابق سربراہ اور وزیر اعظم Khin Nyunt کی برطرفی کے بعد حراست میں لیا گیا تھا۔
سیاسی قیدیوں سے متعلق اس سرکاری کمیٹی کے ایک رکن اور ماضی میں خود بھی جیل میں سزا کاٹنے والے ژے اونگ نامی شہری نے ہزاروں قیدیوں کی رہائی کے تازہ صدارتی فیصلے پر تبصرہ کرتے ہوئے کہا کہ ان قیدیوں کو اس وقت رہا کیا گیا ہے، جب میانمار میں اگلے مہینے ایشیا پیسیفک سمٹ ہونے والی ہے۔ تاہم انہوں نے حکومت کے اس اقدام کو سراہتے ہوئے ان 75 سیاسی قیدیوں کی رہائی کا مطالبہ بھی کیا، جو ابھی تک زیر حراست ہیں۔
میانمار کے صدر تھین سین، جو ایک سابقہ جنرل ہیں، 2011ء میں موجودہ اصلاحات پسند حکومت کے اقتدار میں آنے کے بعد سے اب تک متعدد مرتبہ ہزاروں قیدیوں کی سزائیں معاف کر کے ان کی رہائی کا حکم دے چکے ہیں۔