1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

جرمن چانسلرکی میانمار کے صدر سے ملاقات

عدنان اسحاق3 ستمبر 2014

میانمار کے صدر تھین سین آج کل یورپ کے دورے پر ہیں۔ اس دوران وہ جرمنی، ہالینڈ اور سوئٹزرلینڈ جائیں گے۔ برلن میں آج انہوں نے جرمن چانسلر انگیلا میرکل سے ملاقات کی۔

https://p.dw.com/p/1D5uf
تصویر: Reuters/H. Hanschke

جرمنی نے میانمار میں جمہوری اقدار کو فروغ دینے کے لیے جاری اصلاحاتی اقدامات کو سراہا۔ میانمار کے صدر تھین سین سے ملاقات کے بعد چانسلر انگیلا میرکل نے کہا کہ دونوں ممالک کے مابین ترقیاتی شعبے میں تعاون میں تیزی آ گئی ہے۔ ظہرانے پر ہونے والی اس ملاقات میں میرکل کا مزید کہنا تھا ینگون حکومت کو یقینی بنانا ہو گا کہ اگلے برس ہونے والے پارلیمانی انتخابات شفاف اور غیر جانبدار ہوں۔

جرمنی اور میانمار کے سفارتی تعلقات 1954ء میں قائم ہوئے تھے۔ دونوں ملکوں کے سفارتی روابط کے ساٹھ برس پورے ہونے پر جرمن وزارت خارجہ نے ایک نمائش کا اہتمام کیا ہے۔ ’ ثقافت اور سائنس‘ مستقبل کی کنجی کے نام سے ہونے والی یہ نمائش تین اکتوبر سے شروع ہو کر نو اکتوبر تک جاری رہے گی۔

دوسری عالمی جنگ کے بعد جرمنی میانمار کا دوسرا بڑا تجارتی ساتھی تھا۔ اس وقت میانمار کو ترقیاتی امداد دینے کے حوالے سے جاپان کے بعد جرمنی کا نمبر آتا تھا۔ مغربی جرمنی صرف ثقافتی اور تحقیقی شعبوں میں ہی میانمار کی مدد نہیں کر رہا تھا بلکہ جرمن ہتھیاروں کی ایک بڑی تعداد بھی میانمار کو برآمد کی جاتی تھی۔ میانمار کی حکومت ان ہتھیاروں کا ایک حصہ چینی قوم پرستوں کو مہیا کرتی تھی۔ یہ وہ افراد تھے، جو چین میں کمیونزم کے بعد شمالی میانمار میں پناہ لیے ہوئے تھے۔ تعاون کے دور میں1970ء کی دہائی تک میانمار کی فوج کے متعدد اعلیٰ افسران اور ماہرین کو جرمنی میں تربیت دی گئی۔

Thein Sein Präsident Myanmar bei Angela Merkel in Berlin 03.09.2014
تصویر: Reuters/H. Hanschke

1962ء میں میانمار میں فوجی بغاوت نے بھی ان دونوں ممالک کے تعلقات پر کوئی اثر نہیں ڈالا بلکہ ان کے باہمی روابط مزید بہتر ہو گئے۔ اس دوران جنرل نی ون باقاعدگی سے جرمنی کا دورہ کرتے رہے اور ان کی جرمن فوجی افسران، سیاستدانوں اور دیگر حکومتی نمائندوں سے ملاقاتیں بھی پہلے ہی کی طرح جاری رہیں۔

اس دوستی میں ایکدم اُس وقت دراڑ پڑی، جب1988ء میں میانمار کی فوجی حکومت نے ملک گیر احتجاج کو انتہائی پرتشدد انداز میں کچلا۔ سفارتی تعلقات محدود کر دیے گئے اور ترقیاتی منصوبوں کو فوری طور پر روک دیا گیا۔ اُس موقع پر صرف نجی کارکنوں کو کام کرنے کی اجازت دی گئی اور وہ بھی ایک خاص حد تک۔ پھر23 سال بعد باہمی تعلقات پر سے برف اتنی ہی تیزی سے پگھلی جس تیزی سے جمی تھی۔ 2010ء کے اواخر سے میانمار کی حکومت نے ملک میں اصلاحاتی عمل شروع کیا۔ 2012ء میں یورپی یونین نے اسلحے کی فراہمی کے علاوہ اس ملک پر سے تمام پابندیاں اٹھا لیں۔ جرمن صدر یوآخم گاؤک نے فروری 2014ء میں میانمار کا دورہ بھی کیا۔ اس دوران جرمنی یورپی یونین میں میانمار کا سب سے اہم تجارتی ساتھی بن چکا ہے۔ جرمن ایوان صنعت و تجارت نومبر 2013ء سے میانمار میں دلچپسی رکھنے والے مختلف کاروباری اداروں کو تعاون بھی فراہم کر رہا ہے۔