1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

افغان جنگ کا نیا شمالی محاذ: سب سے زیادہ نقصان شہریوں کا

کشور مصطفیٰ29 مئی 2015

گزشتہ ماہ قندوز کے متعدد اضلاع میں دو ہزار کے قریب عسکریت پسندوں نے مربوط حملہ کر کے جہاں شہریوں، افغان ملٹری اور انٹیلیجنس کو حیرت میں ڈال دیا، وہاں بڑی تعداد میں مقامی باشندوں کو اُن کے گھروں سے محروم بھی کیا ہے۔

https://p.dw.com/p/1FYyB
تصویر: picture-alliance/epa/J. Karger

دو ہفتوں تک افغانستان کی فورسز اور طالبان باغیوں کے مابین جاری رہنے والی اس نئی جنگ میں سب سے زیادہ نقصان شہریوں کا ہوا ہے۔ ایک لاکھ سے زائد مقامی باشندوں کو گھر بار چھوڑ کر محفوظ مقام کی طرف بھاگنے پر مجبور کر دیا گیا۔

مشترکہ سرکاری افغان فوج اور عجلت میں بھرتی کیے جانے والی ملیشیا نے مل کر طالبان جنگجوؤں کا مقابلہ کرتے ہوئے اس عزم کا مظاہرہ کیا کہ صوبائی دارالحکومت کو طالبان کے قبضے میں نہیں جانے دیں گی جو ’’غیر ملکی جہادیوں‘‘ کے ساتھ مل کر لڑائی میں مصروف ہیں۔ مگر گل ٹیپا اور دوسرے جنوبی علاقوں سے باغیوں کو نکالنے میں افواج کو جس مشکل کا سامنا کرنا پڑا اس سے افغان فورسز کی صلاحیت کے بارے میں نئے خدشات نے جنم لیا ہے۔

Afghanistan Gefechte zwischen Armee und Taliban
طالبان عسکریت پسند صوبائی دارالحکومت، قندوز سٹی سے محض تین کلومیٹر کے فاصلے تک پہنچ گئے تھےتصویر: AFP/Getty Images/S. Marai

افغان فورسز کے لیے ایک بڑا چیلنج

افغانستان کے شمالی صوبے قندوز کے گندم کے کھیتوں والے علاقے ’شاخ‘ میں افغان باغیوں کی یہ چڑھائی نہایت حیرت انگیز اور غیر متوقع تھی۔ مسلح باغیوں نے اس علاقے کے رہائشی مکانات کو اپنے قبضے میں لینا شروع کر دیا اور ان میں رہنے والے شہریوں کو انسانی ڈھال کے طور پر استعمال کرنے لگے۔ اس علاقے کے ایک رہائشی غلام سخی نے بتایا،’’ طالبان جنگجوؤں کا یہ مربوط حملہ اتنا اچانک اور غیر متوقع تھا کہ شہری اور ملٹری فورسز دونوں ہی اچنبے میں تھے۔ خوف کے مارے شہریوں میں سے جو بھاگ سکتا تھا اور بھاگنا چاہتا تھا وہ بھاگ نکلا۔ جو ہم جیسے تھے اپنے اپنے گھروں میں ہی رہے اور دس روز تک ہم بے یار و مددگار تھے۔‘‘

قندوز کے گورنر محمد عمر سیفی کا اس بارے میں کہنا تھا، ’’حکومت اس صورتحال میں کچھ نہیں کر پا رہی تھی۔ امدادی فوج کئی دن تک اس علاقے تک نہیں پہنچ پائی تھی۔ اُس کے بعد ان فورسز کو گولہ بارود، سامان حرب، خوراک اور ایندھن، ہر چیز کی قلت کا سامنا تھا، جس کی وجہ رسد کا ناقص انتظام تھا‘‘۔

Afghanistan Kriegsopfer Mutter und Mädchen im Krankenhaus Kundus
صدمے کے شکار شہریوں میں ایک بڑی تعداد خواتین اور بچوں کی ہےتصویر: AP

انہوں نے مزید کہا کہ دو ہفتوں تک حکومتی فورسز اور طالبان جنگجوؤں کے مابین جھڑپیں جاری رہیں یہاں تک کہ طالبان عسکریت پسند صوبائی دارالحکومت، قندوز سٹی سے محض تین کلومیٹر کے فاصلے تک پہنچ گئے۔ اس دوران صدر اشرف غنی نے اپنے مجوزہ دورہ بھارت کو کچھ گھنٹوں تک ملتوی بھی کر دیا تھا اور افغانستان میں تعینات نیٹو کمانڈر سے ملاقات کی۔ طالبان کے ترجمان ذبیح اللہ مجاہد نے اس حملے کی ذمہ داری قبول کرتے ہوئے کہا تھا کہ اب قندوز میں پولیس اور فوج کی سات چوکیاں طالبان کے قبضے میں ہیں۔

یہ جھڑپیں افغانستان سے غیر ملکی لڑاکا افواج کے گزشتہ سال انخلا کے بعد افغان فورسز کے لیے سب سے بڑا چیلنج ثابت ہوئیں اور گل ٹیپا اور دوسرے جنوبی علاقوں سے باغیوں کو نکالنے میں افواج کو جس مشکل کا سامنا کرنا پڑا اس سے افغان فورسز کی صلاحیت کے بارے میں نئے خدشات نے جنم لیا ہے۔

Terroranschlag in Kunduz
قندوز ایک عرصے سے طالبان جنگجوؤں کے حملوں کا خاص ہدف رہا ہےتصویر: AP

سب سے زیادہ نقصان شہریوں کا

قندوز کے صوبائی پولیس سربراہ جنرل عبدل صابر نصرتی اس حقیقت کو تسلیم کرتے ہیں کہ طالبان باغیوں کو قندوز سے مکمل طور پر نکالنے کا عمل سست روی کا شکار ہے۔ وہ کہتے ہیں،’’ شہری ہلاکتوں سے بچنے کے لئے ہم نے بھاری توپ خانے کا استعمال نہیں کیا اور ہم کر بھی نہیں سکتے ہیں۔ گزشتہ سال افغانستان سے امریکا اور نیٹو فورسز کے انخلاء کے بعد جو بین الاقوامی فورسز ملک میں باقی رہ گئی ہیں اُن کا کردار تربیت دہندہ اور ایک سپورٹ دینے والی فورس سے زیادہ باقی نہیں رہ گیا ہے اس کے سبب میدان جنگ میں ہماری فورسز اضافی طور پر محتاط ہیں اور آپریشن سست روی کا شکار ہے۔‘‘

اس صورتحال حال میں سب سے زیادہ نقصان شہریوں کا ہو رہا ہے جن کی ایک لاکھ کی تعداد پہلے ہی اپنا گھر بار چھوڑ کر ملک کے دیگر علاقوں میں کرائے کے مکان یا اپنے عزیز و اقارب کے پاس چلی گئی ہے۔ بے گھر ہونے والے ان افغان شہریوں کو اقوام متحدہ کی ایجنسیوں اور دیگر خیراتی اداروں سے کچھ سپورٹ اور تعاون مل رہا ہے۔ دریں اثناء قندوز کی جنگ میں زخمی ہونے والوں میں سے 204 شہریوں کو قندوز کے واحد ’صدمے کے شکار مریضوں کے ہسپتال‘ میں داخل کر دیا گیا ہے۔ یہ ہسپتال فرانسیسی غیر سرکاری ادارے ’ میڈیسین سان فرنٹیئر‘ کے ایماء پر چل رہا ہے۔ محض ایک ہفتے کے دوران یعنی 11 تا 17 مئی کے درمیان جنگ میں زخمی ہونے والے 84 افراد اس ہسپتال میں داخل کیے گئے۔