1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

یورپی پارلیمنٹ میں قدامت پسندوں کے ساتھ ’اتحاد مخالف‘ بھی آگے

ندیم گِل26 مئی 2014

قدامت پسند یورپین پیپلز پارٹی یورپی پارلیمنٹ میں اکثریتی نشستوں پر فتح رہی ہے۔ اس کے ساتھ ہی یورپ کے بارے میں کم امیدی رکھنے والی جماعتوں نے بھی اچھی کارکردگی دکھاتے ہوئے مغربی یورپ کو حیرت زدہ کر دیا ہے۔

https://p.dw.com/p/1C6mK
تصویر: DW/B. Riegert

ووٹوں کا تناسب 43 فیصد سے زائد رہا ہے۔ یورپی پارلیمنٹ کی جانب سے شائع کیے گئے سرکاری اندازوں کے مطابق سینٹر رائٹ جماعتیں مجموعی 751 نشستوں میں سے 211 پر کامیاب ہو چکی ہیں۔ یورپی پیپلز پارٹی (ای پی پی) کے مرکزی امیدوار ژاں کلود ینکر کا کہنا ہے کہ اُن کی جماعت الیکشن میں کامیابی کے ساتھ ساتھ کمیشن کی صدارت کے منصب کے لیے بھی فاتح رہی ہے۔

سوشلٹس دوسرے نمبر پر ہیں جنہیں 193 نشستوں پر کامیابی ملی ہے۔ اس کے بعد گرینز اور انتہائی بائیں بازوں کی جماعتوں کا نمبر پے۔ یورپ کے بارے میں کم امیدی رکھنے والی جماعتوں کو 129 نشستیں ملی ہیں۔

جرمنی میں ووٹوں کا تناسب 48 فیصد رہا ہے۔ چانسلر انگیلا میرکل کی جماعت سی ڈی یوُ نے تقریباﹰ 36 فیصد ووٹ حاصل کیے ہیں۔ جرمنی کو یورپی پارلیمنٹ 96 نشستیں حاصل ہیں۔ سوشل ڈیموکریٹک پارٹی نے بھی 2009ء کے اکیس فیصد کے مقابلے میں اس مرتبہ ستائیس فیصد ووٹ حاصل کرتے ہوئے بہتر کارکردگی دکھائی ہے جبکہ فری ڈیموکریٹک پارٹی یورپی پارلیمنٹ سے باہر ہو گئی ہے۔ اس کے مقابلے میں نئی سیاسی جماعت AfD سات فیصد ووٹ حاصل کرتے ہوئے پارلیمنٹ میں پہنچی ہے۔ گرینز پارٹی کو گیارہ فیصد ووٹ ملے ہیں۔

فرانس میں انتہائی دائیں بازو کی نیشنل فرنٹ سب سے مضبوط جماعت بن کر ابھری ہے جس کی کامیابی نے فرانس کی سرحدوں سے باہر بھی یورپی عوام کو حیرت زدہ کر دیا ہے۔ سینٹر رائٹ اپوزیشن یونین فار اے پاپولر موومنٹ (یو ایم پی) دوسرے جبکہ صدر فرانسوا اولانڈ کی حکمران سوشلسٹ پارٹی تیسرے نمبر پر ہے۔

اٹلی میں وزیر اعظم ماتیو رینزی کی سینٹر لیفٹ ڈیموکریٹک پارٹی (پی ڈی) ایک بڑی فتح کی جانب گامزن ہے۔ خبر رساں ادارے روئٹرز کے مطابق نصف سے زائد ووٹوں کی گنتی کے مطابق پی ڈی کو کم از کم اکتالیس فیصد ووٹ حاصل ہو چکے ہیں۔

EU Parlamentswahl 25.05.2014 Juncker
ژاں کلود ینکرتصویر: John Thys/AFP/Getty Images

آسٹریا میں بھی انتہائی دائیں بازو کی ایف پی او بیس فیصد ووٹوں کے ساتھ سب سے آگے ہے۔ ڈنمارک میں ایمیگریشن مخالف ڈینش پیپلز پارٹی بھی سب سے زیادہ ووٹ لیتی دکھائی دے رہی ہے۔ برطانیہ میں رائے عامہ کے جائزوں کے عین مطابق یورپ کے بارے میں کم امیدی رکھنے والی جماعت UKIP تیس فیصد تک ووٹ لیتی دکھائی دیتی ہے۔

اس کے برعکس ہالینڈ میں گیئرٹ ولڈرز کی پارٹی فار فریڈم توقعات کے مطابق ووٹ حاصل کرنے میں ناکام رہی ہے اور دوسرے سے چوتھے نمبر پر جا پہچنی ہے۔

سویڈین میں خواتین کی ترجمان فیمنسٹ انیشی ایٹو پارٹی نے مطلوبہ سات فیصد ووٹ حاصل کر لیے ہیں اور یوں اسے پہلی مرتبہ یورپی پارلیمنٹ میں بیٹھنے کا موقع ملے گا۔ سویڈن ہی کی گرین پارٹی کو سترہ فیصد سے زائد ووٹ ملے ہیں جبکہ سب سے زیادہ ووٹ سوشل ڈیموکریٹ پارٹی نے حاصل کیے ہیں۔

یونان میں بائیں بازو کی سیریزا پارٹی نے سب سے زیادہ ووٹ حاصل کیے ہیں۔ یوں وزیراعظم انتونس ساماراس کی سیاسی پارٹی یورپی پارلیمنٹ میں دوسری بڑی سیاسی جماعت کے طور پر سامنے آئی ہے۔ دائیں بازو کی ’گولڈن ڈان‘ جماعت بھی نو سے دس فیصد ووٹ جیت رہی ہے۔

یورپی یونین کے رکن 28 ملکوں میں یورپی پارلیمنٹ کے نئے ارکان کے انتخاب کے لیے ووٹنگ 22 مئی کو شروع ہوئی جو گزشتہ روز اتوار تک جارہی رہی۔ اس وسیع تر انتخابی عمل میں یونین کے 400 ملین کے قریب ووٹروں کو یورپی پارلیمنٹ کے 751 ارکان کا انتخاب کرنا تھا۔

گزشتہ جمعرات کو پہلے مرحلے میں برطانیہ اور ہالینڈ میں ووٹ ڈالے گئے۔ برطانوی عوام نے 73 اور ہالینڈ کے ووٹروں نے 26 نمائندوں کا انتخاب کرنا تھا۔ جرمنی سمیت یورپی یونین کے رکن زیادہ تر ملکوں میں ووٹنگ اتوار کے روز ہوئی۔

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں

اس موضوع سے متعلق مزید