1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

کینیڈین جہادیوں کی بھرتی کے خلاف مساجد کے آئمہ کی جنگ

مقبول ملک15 اپریل 2015

دہشت گرد گروپ اسلامک اسٹیٹ کی طرف سے جہادیوں کی بھرتی کے خلاف کینیڈا میں زیادہ تر کیلگری کی مساجد کے آئمہ کا ایک گروپ ایک ایسی جنگ جاری رکھے ہوئے ہے جسے انتہا پسندی کے خلاف پہلی دفاعی لائن کا نام دیا جا رہا ہے۔

https://p.dw.com/p/1F8oY
اب تک درجنوں کینیڈین شہری داعش میں شمولیت کے لیے شام اور عراق جا چکے ہیںتصویر: picture alliance/ZUMA Press/Medyan Dairieh

رَوکی ماؤنٹینز کی وادی میں کیلگری کی مختلف مساجد میں امامت کرانے والی ان مذہبی شخصیات نے ’اسلامک اسٹیٹ‘ کے جہادیوں کے خلاف گزشتہ مہینے ایک ایسا متفقہ فتویٰ بھی جاری کیا، جس میں دولت اسلامیہ یا داعش کی طرف سے کینیڈا کو دی جانے والی دھمکیوں کی مذمت کی گئی تھی۔

ان آئمہ کے اس فتوے کا ایک پس منظر یہ بھی ہے کہ ’اسلامک اسٹیٹ‘ اپنی صفوں میں نئے جہادیوں کی بھرتی کے لیے آن لائن مہم جاری رکھے ہوئے ہے۔ ’اسلامک اسٹیٹ‘ کے جنگجوؤں میں شمولیت کے لیے اب تک کینیڈا کے جو درجنوں شہری شام کا رخ کر چکے ہیں، ان میں سے زیادہ تر کا تعلق کیلگری ہی کے شہر سے تھا۔

Kanada Ottawa Anschlag Parlament Polizei Spezialeinheit 22.10.2014
گزشتہ برس اکتوبر میں اوٹاوا میں کینیڈین پارلیمان کے قریب ایک خونریز دہشت گردانہ حملہ کیا گیا تھاتصویر: Reuters/Chris Wattie

اپنے اس فتوے میں ان آئمہ نے کینیڈا کے مسلم نوجوانوں کو ’اسلامک اسٹیٹ‘ کی شدت پسندی سے دور رہنے کی تلقین کرتے ہوئے کہا ہے کہ اس دہشت گرد تنظیم نے ’اسلامی احکام اور شعائر کی انتہائی غیر انسانی اور بربریت آمیز انداز میں خلاف ورزی‘ کی ہے۔

اس بارے میں کیلگری کے المدینہ اسلامک سینٹر کے صدر خلیل خان نے نیوز ایجنسی اے ایف پی کو بتایا، ’’اس فتوے کے بعد وہ مسلمان، جنہیں اس فتوے میں مخاطب کیا گیا ہے، اس انتہا پسند گروپ میں اپنی شمولیت کا خیال ذہن میں آنے پر کئی بار سوچیں گے۔ وہ اس بات پر غور کرنے پر مجبور ہوں گے کہ جو کچھ کرنے کا وہ سوچ رہے ہیں، وہ درست ہے یا غلط؟‘‘

خلیل خان کینیڈا کے مختلف شہروں کی مساجد کے ان 37 آئمہ اور مذہبی اسکالرز میں سے ایک ہیں، جنہوں نے یہ فتویٰ جاری کیا ہے۔ اس فتوے کی حمایت امریکی ریاست ٹیکساس میں مسلمانوں کی ایک مسجد کے امام نے بھی کی ہے۔ اس فتوے کی ضرورت اس بارے میں اطلاعات کی تصدیق کے بعد اور بھی زیادہ ہو گئی تھی کہ کینیڈا کے تیل کی دولت سے مالا مال صوبے آلبیرٹا سے کم از کم ایک درجن مسلمان ’اسلامک اسٹیٹ‘ کے عسکریت پسندوں کے ساتھ مل کر ان کے نام نہاد جہاد میں شمولیت کے لیے بیرون ملک جا چکے ہیں۔

کیلگری کی المدینہ مسجد کے ڈائریکٹرز میں سے ایک ظہیرہ طارق نے اے ایف پی کے ساتھ گفتگو میں کہا، ’’جو نوجوان اسلامک اسٹیٹ کے جہادیوں میں شامل ہونے کا سوچتے ہیں، ان کے لیے سب سے بڑی کشش اسلام کی وہ تشریح ہوتی ہے، جو سرے سے غلط ہوتی ہے۔ نوجوان لوگ اس لیے ایسے جہادیوں کی طرف راغب ہوتے ہیں کہ ان میں اسلامی تعلیم کی کمی ہوتی ہے اور انہیں حدیث کے نام پر غلط باتیں بتائی جاتی ہیں۔‘‘

ظہیرہ طارق کے مطابق ایسے کینیڈین مسلم نوجوانوں کو ایسے آئمہ کی ضرورت ہوتی ہے، جو انہیں اسلام کی اصل تعلیمات سے روشناس کرا سکیں۔

Symbolbild Kanada Multikulti
کینیڈا ایک کثیر النسلی اور کثیر الثقافتی معاشرہ ہے، جہاں مسلم آبادی کا تناسب تیزی سے بڑھ رہا ہےتصویر: L.Hagberg/AFP/Getty Images

یوں تو گزشتہ دہائیوں کے دوران پورے کینیڈا میں ہی مسلم آبادی میں خاصہ اضافہ ہوا ہے لیکن کیلگری میں یہ اضافہ حیران کن رہا ہے۔ 2010ء میں اس سے دو عشرے پہلے کے مقابلے میں اس شہر میں مسلمانوں کی آبادی چار گنا ہو کر ایک لاکھ بیس ہزار ہو چکی تھی۔ یہی نہیں بلکہ تب کیلگری کینبیڈا کے بڑے شہروں میں سے پہلا شہر تھا، جہاں ایک مسلمان کو بلدیاتی الیکشن میں میئر منتخب کیا گیا تھا۔

کینیڈا سے اب تک جتنے بھی مسلمان شہری ’اسلامک اسٹیٹ‘ میں شامل ہونے کے لیے شام گئے ہیں، ان سب کا تعلق یا تو مسلمان تارکین وطن کے گھرانوں سے تھا یا وہ مقامی نومسلم شہری تھے۔ ان میں سے کیلگری کے رہنے والے بائیس سالہ نومسلم دامیان کلیئرمونٹ کا تعلق ایک مقامی مسیحی گھرانے سے تھا۔ دامیان وہ پہلا کینیڈین شہری تھا جو جنوری 2014ء میں شام میں اسلامک اسٹیٹ کی طرف سے لڑتا ہوا مارا گیا تھا۔

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں

اس موضوع سے متعلق مزید