1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

پاکستانی فلمیں، نیا سال، نئی امیدیں

تنویر شہزاد، لاہور4 جنوری 2014

تجزیہ نگاروں کے مطابق 2013ء کا سال پاکستانی فلم انڈسٹری کے لیے بہترین سال رہا۔ آج کل کوئی پچاس نئی فلمیں زیرِ تکمیل ہیں اور امید کی جا رہی ہے کہ 2014ء پاکستانی فلمی صنعت کی بحالی کے حوالے سے ایک اہم سال ثابت ہو گا۔

https://p.dw.com/p/1AjyW
پاکستانی اداکار و فلمساز ہمایوں سعید، جن کی فلم ’میں ہوں شاہد آفریدی‘ 2013ء میں بہت کامیاب رہی اور جو 2014ء میں مزید فلمیں سامنے لائیں گے
پاکستانی اداکار و فلمساز ہمایوں سعید، جن کی فلم ’میں ہوں شاہد آفریدی‘ 2013ء میں بہت کامیاب رہی اور جو 2014ء میں مزید فلمیں سامنے لائیں گےتصویر: AFP/Getty Images

دو ہزار تیرہ میں ریلیز ہونے والی پاکستانی فلم ’عشق خدا‘ کے ہدایتکار شہزاد رفیق نے ڈی ڈبلیو کو بتایا کہ گزشتہ برس کہیں زیادہ تعداد میں اور کہیں بہتر معیار کی فلمیں ریلیز ہوئیں، جنہیں ملک بھر میں نئے سینماؤں کی وجہ سے زیادہ بڑی مارکیٹ بھی ملی۔ پاکستانی فلم انڈسٹری کو دہشت گردی کے خلاف کام کرنے والے اداروں کی جدوجہد پر مبنی فلم ’وار‘ کی کامیابی سے پہلی مرتبہ یہ پتہ چلا کہ پاکستانی مارکیٹ میں کوئی ایک فلم بھی بیس کروڑ سے زائد مالیت کا بزنس کر سکتی ہے۔ اس صورتحال نے پاکستانی فلمسازوں کی آنکھوں میں امید کے دیے روشن کر دیے ہیں۔ آج کل دو درجن سے زائد فلمساز ایسی کوئی پچاس مختلف فلموں پر کام کر رہے ہیں، جن میں سے زیادہ تر اس نئے سال میں سینماؤں کی زینت بن سکتی ہیں۔

اس سال زیبا بختیار اپنی فلم ’آپریشن زیرو ٹو ون‘، فلمساز جامی ’مور‘، کامران مجاہد ’سایہ خدائے ذوالجلال‘، ہمایوں سعید ’گدھ‘ (ممکنہ نام )، علی آغا ’کولاچی‘، ببرک شاہ ’مولا وے‘ اور سید نور اپنی فلم ’پرائس آف آنر‘ مکمل کرنے اور ریلیز کرنے کا ارادہ رکھتے ہیں۔ اس کے علاوہ فلم ’جلیبی‘، ’ڈاؤن ورڈ ڈاگ‘، ’ہجرت‘ اور ’کم بخت‘ بھی نئے سال میں نمائش کے لیے پیش کی جائیں گی۔

بھارتی فلم ’دھوم تھری‘ پاکستانی سینماؤں میں بہت کامیاب جا رہی ہے، بھارتی فلموں ہی کی بدولت فلم بین ایک بار پھر سینما گھروں کا رخ کرنے لگے ہیں اور اب پاکستانی فلمیں بھی شوق سے دیکھتے ہیں، اس وجہ سے بھی پاکستانی فلمی صنعت کے احیاء کی امید پیدا ہوئی ہے
بھارتی فلم ’دھوم تھری‘ پاکستانی سینماؤں میں بہت کامیاب جا رہی ہے، بھارتی فلموں ہی کی بدولت فلم بین ایک بار پھر سینما گھروں کا رخ کرنے لگے ہیں اور اب پاکستانی فلمیں بھی شوق سے دیکھتے ہیں، اس وجہ سے بھی پاکستانی فلمی صنعت کے احیاء کی امید پیدا ہوئی ہےتصویر: DW/T. Shahzad

عمران خان کی زندگی پر بنائی جانے والی فلم ’کپتان‘ گزشتہ کئی برسوں سے التوا کا شکار چلی آ رہی ہے۔ بعض فلمی حلقوں کو توقع ہے کہ یہ فلم بھی اس نئے سال میں تکمیل کے مراحل طے کر لے گی۔ جہاں اور ہمایوں سیعد ایک کامیڈی فلم ریلیز کرنا چاہتے ہیں وہاں بلال لاشاری ’وار ٹو‘ پر کام کر رہے ہیں۔

یہ بات بھی قابل ذکر ہے کہ اداکار شان کے ساتھ ساتھ ہدایتکار سجاد گل اور شہزاد رفیق جبکہ پاکستان کا سب سے بڑا نجی ٹی وی چینل بھی دو ہزار چودہ میں فلمیں ریلیز کرنے کا پروگرام بنا رہے ہیں۔ ہم ٹی وی کی تیار کردہ پہلی فلم ’دل روئے آنسو‘ بھی دو ہزار چودہ میں ریلیز ہو رہی ہے۔

ایک اندازے کے مطابق پاکستان میں گزشتہ برس بننے والی تیس سے زائد چھوٹی بڑی فلموں میں سے سترہ پشتو، گیارہ اردو اور چھ پنجابی زبان میں تھیں۔ ’وار‘ اور ’میں ہوں شاہد آفریدی‘ نے مقبولیت کے نئے ریکارڈ قائم کیے جبکہ ’چنبیلی‘، ’زندہ بھاگ‘ اور ’عشق خدا‘ کو بھی بے حد پسند کیا گیا۔

’عشق خدا‘ کے فلمساز شہزاد رفیق کہتے ہیں کہ پاکستان میں نئے فلمساز، نئی ٹیکنالوجی، نئے سینما گھر اور نئے فلمی موضوعات سب مل جل کر ایک نئی فلمی تاریخ رقم کر رہے ہیں۔ ان کے بقول نوجوان فلم میکرز کو آسان شرائط پر قرضے ملنے چاہییں۔ ایک سوال کے جواب میں انہوں نے بتایا کہ اس سال ان کی فلم ’سیلیوٹ‘ ریلیز ہو گی جو کہ آپریشن راہ راست کے پس منظر میں بنائی گئی ہے۔ اس فلم میں دہشت گردی کے خلاف لڑنے والے فوجیوں کی جدوجہد دکھائی گئی ہے۔ اس فلم کے نمایاں اداکاروں میں ندیم، عتیقہ اوڈھو اور احسن خان شامل ہیں۔

فلم ’وار‘ کی کامیابی سے پہلی مرتبہ یہ پتہ چلا کہ پاکستانی مارکیٹ میں کوئی ایک فلم بھی بیس کروڑ سے زائد مالیت کا بزنس کر سکتی ہے
فلم ’وار‘ کی کامیابی سے پہلی مرتبہ یہ پتہ چلا کہ پاکستانی مارکیٹ میں کوئی ایک فلم بھی بیس کروڑ سے زائد مالیت کا بزنس کر سکتی ہےتصویر: DW/T. Shahzad

نئے سال کی ایک اور فلم ’مولا وے‘ کی کہانی جعلی ادویات اور کاپی رائٹ کے قوانین کی خلاف ورزیوں کے گرد گھومتی ہے۔ عالمی معیار کی اس فلم کا تمام کام پاکستان میں مکمل کیا جا رہا ہے۔ اورنگ زیب لغاری اس فلم میں اہم کردار ادا کر رہے ہیں۔ اس فلم کے پروڈیوسر ببرک شاہ نے ڈی ڈبلیو کو بتایا کہ پاکستانی فلم ’وار‘ کا بھارتی فلموں کی موجودگی میں پاکستانی مارکیٹ میں اچھا بزنس کرنا یہ ظاہر کرتا ہے کہ پاکستانی ناظرین اپنی اچھی فلموں کو دیکھنا چاہتے ہیں۔ ان کے بقول تین کروڑ کی فلم بنا کر بیس کروڑ کمانے والے نوجوان پاکستانی فلم میکر اُن بھارتی فلمسازوں کی نسبت زیادہ بہتر معاشی رزلٹ لے رہے ہیں، جو ستر کروڑ کی فلم بنا کر ایک سو پچاس کروڑ کماتے ہیں۔

ببرک شاہ کے مطابق پاکستان میں بھارتی فلموں کی نمائش سے سینما کلچر کو فروغ مل رہا ہے۔ پاکستان بھارتی فلموں کی ایک بڑی مارکیٹ بنتا جا رہا ہے لیکن معاشی نقصان سے بچنے کے لیے اب بھارت کو بھی اپنے ہاں پاکستانی فلموں کی نمائش کی اجازت دینا پڑے گی، جس سے پاکستانی فلم میکرز کو ایک بڑی مارکیٹ مل سکے گی۔

ببرک شاہ دو ہزار چودہ میں محبت کی ایک داستان پر مبنی اپنی فلم ریلیز کرنے جا رہے ہیں۔ ڈی ڈبلیو سے ملاقات میں انہوں نے بتایا کہ اس فلم میں انہوں نے پاکستان کی دیہی زندگی کے مسائل کو موضوع بنایا ہے۔ یہ فلم عالمی مارکیٹ کے لیے انگریزی میں، پاکستان اور بھارت کے لیے اردو میں اور صوبہ خیبر پختونخواہ اور افغانستان کے لیے پشتو میں تیار کی جا رہی ہے۔ ببرک شاہ مسئلہء کشمیر پر بھی ایک فلم بنا رہے ہیں۔ اُن کے نزدیک دو ہزار چودہ میں پاکستانی فلموں کے لیے سب سے بڑا چیلنج عالمی منڈی میں اپنی جگہ بنانا ہے۔

فلم ’چنبیلی‘ کے ڈائریکٹر اسماعیل جیلانی
فلم ’چنبیلی‘ کے ڈائریکٹر اسماعیل جیلانیتصویر: privat

معروف فلم ’چنبیلی‘ کے ڈائریکٹر اسماعیل جیلانی نے ڈی ڈبلیو کو بتایا کہ وہ آج کل جن دو فلموں پر کام کر رہے ہیں، ان میں سے ایک فلم ایکشن ایڈونچر پر مشتمل ہے۔ ان کے بقول پاکستانی فلمی صنعت کی بحالی کے لیے باکس آفس کولیکشن کو کمپیوٹرائزڈ کرنا ہو گا۔

فلمساز اور اداکارہ زیبا بختیار نے ڈی ڈبلیو کو بتایا کہ سن دو ہزار چودہ کے وسط میں ان کی ریلیز ہونے والی فلم ’آپریشن زیرو ٹو ون‘ میں پاکستان کے موجودہ حالات کو موضوع بنایا گیا ہے۔ ان کے بقول کسی بھی پاکستانی حکومت نے فلم انڈسٹری کی بہتری کے لیے اقدامات نہیں کیے اور آج بھی یہ انڈسٹری کسی انفراسٹرکچر کے بغیر ہی کام کر رہی ہے۔ زیبا بختیار کے بقول فلم میکرز کو اپنے موضوعات کا انتخاب کرتے وقت پاکستان کی باون فی صد نوجوان آبادی کو ضرور سامنے رکھنا ہو گا۔

اداکار ہمایوں سعید نے ڈی ڈبلیو کو بتایا کہ وہ آج کل جس کامیڈی فلم پر کام کر رہے ہیں، وہ اس سال کے آخر میں نمائش کے لیے پیش کر دی جائے گی۔ ان کے بقول پاکستان میں فلم بینوں کی ایک نئی کلاس سامنے آ گئی ہے اور اپنی فلموں کے معیار کو مزید بہتر بنانا اس وقت پاکستانی فلمسازوں کے لیے سب سے بڑا چیلنج ہے۔

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں