1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

پاکستان میں ایک دن میں بارہ مجرموں کو پھانسی

شکور رحیم، اسلام آباد17 مارچ 2015

پاکستانی محکمہ انصاف کی طرف سے رواں ماہ سزائے موت کے قانون پر بلاتفریق عملدرآمد کے حکومتی فیصلے کے بعد منگل سترہ مارچ کو صرف ایک دن میں بارہ مجرموں کو تختہ دار پر لٹکا دیا گیا۔

https://p.dw.com/p/1EsAc
کراچی میں دو مجرموں کو پھانسی دی گئیتصویر: picture-alliance/dpa/R. Khan

پھانسی کے ذریعے سزائے موت پانے والے تمام مجرموں کی قتل کے مقدمات میں جملہ اپیلیں مسترد ہو چکی تھیں۔ جن سات شہروں میں ان مجرمان کو پھانسیاں دی گئیں، ان میں کراچی، جھنگ، ملتان،میانوالی، گوجرانوالہ، فیصل آباد اور راولپنڈی شامل ہیں۔

سب سے زیادہ یعنی تین افراد کو جھنگ جبکہ کراچی، میانوالی اور راولپنڈی میں دو دو مجرموں کو پھانسی دی گئی ملتان، فیصل آباد اور گوجرانوالہ میں ایک ایک مجرم کو تختہ دار پر لٹکا دیا گیا۔

وفاقی وزارت داخلہ نے دس مارچ کو چاروں صوبائی حکومتوں کو بھیجے گئے ایک مراسلے میں کہا تھا کہ سزائے موت پانے والے تمام ایسے مجرموں کی سزاؤں پر قانون کے مطابق عمل کیا جائے جن کی سزا کے خلاف تمام اپیلیں مسترد ہو چکی ہیں۔

Hinrichtung in Faisalabad, Pakistan 21.12.2014
فیصل آباد جیل میں ایک مجرم کو تختہ دار پر لٹکا دیا گیاتصویر: picture-alliance/dpa/I. Sheikh

اس سے پہلے حکومت نے دسمبر 2014 میں پشاور کے آرمی پبلک اسکول پر حملے کے فوراً بعد صرف دہشت گردی کے مقدمات میں سزائے موت پانے والے قیدیوں کی سزاؤں پر عملدرآمد کا اعلان کیا تھا۔ اس اعلان سے پاکستان میں سات سال سے سزائے موت دیے جانے پر عائد غیر اعلانیہ پابندی کا خاتمہ ہو گیا تھا۔

دوسری جانب کم عمری میں کیے جانے والے قتل کے ایک مقدمے میں موت کی سزا پانے والے قیدی شفقت حسین کی پھانسی روک دیے جانے کی امید بھی کم رہ گئی ہے۔ وفاقی وزیر داخلہ چوہدری نثار علی خان کا کہنا ہے کہ شفقت حسین کے مقدمے کو سیاسی رنگ نہیں دینا چاہیے اور نہ ہی اس معاملے میں کوئی سیاست کی جانی چاہیے۔

منگل کے روز قومی اسمبلی میں اظہار رائے کرتے ہوئے وزیر داخلہ نے کہا، ’’جیل ڈاکٹر کے مطابق شفقت حسین کی عمر 25 سال تھی اور آج جو لوگ ان کی پھانسی کے معاملے کو اچھال رہے ہیں، انہوں نے ٹرائل کورٹ، ہائی کورٹ اور پھر سپریم کورٹ میں کسی بھی مرحلے پر شفقت حسین کی کم عمری کا نکتہ نہیں اٹھایا۔‘‘

چوہدری نثار علی خان نے کہا کہ شفقت حسین کی پھانسی میں 36 گھنٹے باقی رہ گئے ہیں۔ اگر اس دوران کوئی ان کی کم عمری کا ٹھوس ثبوت لائے تو اسے دیکھا جائے گا ورنہ انیس مارچ کو شفقت حسین کو پھانسی دے دی جائے گی۔ پاکستان کے زیر انتظام کشمیر کے رہائشی شفقت حسین پر سن دو ہزار ایک میں پانچ سالہ بچے عمیرکو قتل کرنے کا الزام تھا۔ انسداد دہشت گردی کی عدالت کی جانب سے سن دو ہزار چار میں اسے پھانسی کی سزا سنائی گئی تھی۔ ملزم کے لواحقین کا کہنا ہے جب شفقت حسین کو موت کی سزا سنائی گئی اس وقت اس کی عمر صرف چودہ برس تھی۔

انسانی حقوق کی تنظیموں نے وفاقی وزیر داخلہ سے شفقت کی پھانسی رکوانے کی اپیل کی تھی۔ چوہدری نثار علی خان نے تاہم قومی اسمبلی میں کہا کہ شفقت حسین کی رحم کی اپیلیں 2006ء میں ہائی کورٹ، 2007ء میں سپریم کورٹ جبکہ 2012ء میں صدر مملکت کی جانب سے بھی مسترد کی جا چکی ہیں۔

ادھر پاکستانی سپریم کورٹ نے بلوچستان کی مچھ جیل میں سزائے موت کے منتظر متحدہ قومی موومنٹ (ایم کیو ایم) کے کارکن صولت مرزا کی موت کی سزا کو ایک مرتبہ پھر برقرار رکھا ہے۔

Hinrichtung in Faisalabad, Pakistan 21.12.2014
جھنگ جیل میں تین مجرمان کو پھانسی دی گئیتصویر: picture-alliance/dpa/I. Sheikh

کراچی کی ایک عدالت نے صولت مرزا کو 1999ء میں کراچی الیکٹرک سپلائی کمپنی کے ایم ڈی شاہد حامد کو قتل کرنے کے الزام میں سزائے موت سنائی تھی۔ صولت مرزا کی ہائی کورٹ اور پھر اس کے بعد سپریم کورٹ سے موت کی سزا ملنے کے خلاف اپیلیں اور نظر ثانی کی درخواست بھی مسترد ہو چکی تھیں۔ تاہم ان کی طرف سے ایک بار پھر سپریم کورٹ میں رحم کی اپیل دائر کی گئی تھی۔

اس پر عدالت کے رجسٹرار آفس نے پہلے ہی اپیل اور نظر ثانی اپیل مسترد ہونے کا اعتراض لگا کر ان کی درخواست واپس کر دی تھی۔ رجسٹرار آفس کے اعتراضات کے خلاف صولت مرزا کے وکیل اور پیپلزپارٹی کے رہنما لطیف کھوسہ پیش ہوئے۔ سپریم کورٹ کےچیف جسٹس ناصرالملک نے اپنے چیمبر میں اس اپیل کی سماعت کرتے ہوئے رجسٹرار آفس کے اعتراضات کے خلاف صولت مرزا کی اپیل پر رجسٹرار آفس کے اعتراضات بحال رکھتے ہوئے صولت کی پھانسی کی سزا برقرار رکھی۔

راولپنڈی کی اڈیالہ جیل کے حکام کے مطابق وہاں کل (بدھ) کو مزید پانچ مجرموں کو تختہ دار پر لٹکا دیا جائے گا۔ حکام کے مطابق آنے والے دنوں میں پھانسیوں کا یہ سلسلہ جاری رہے گا۔ گزشتہ دسمبر سے اب تک انتالیس مجرموں کو پھانسی دی جا چکی ہے۔ انسانی حقوق کی بین الاقوامی تنظیم ایمنسٹی انٹرنیشنل کے مطابق اس وقت پاکستان میں آٹھ ہزار سے زائد ملزمان اپنے خلاف سزائے موت کے فیصلوں پر عمل درآمد کے منتظر ہیں۔

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں

اس موضوع سے متعلق مزید