1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

پرویز مشرف پر حملے کا ایک اور مجرم تختہ دار پر

امتیاز احمد31 دسمبر 2014

پاکستان میں سابق فوجی صدر پرویز مشرف پر حملے کے ایک اور مجرم کو پھانسی دے دی گئی ہے۔ پشاور میں اسکول پر حملے کے بعد پاکستان میں سزائے موت دینے پر پابندی اٹھائے جانے کے بعد سے یہ ساتویں پھانسی ہے۔

https://p.dw.com/p/1EDVf
Symbolbild Todesstrafe Galgen
تصویر: picture-alliance/dpa

صوبہ خیبر پختونخوا کے دارالحکومت پشاور کی سینٹرل جیل کے ایک اہلکار نے نیوز ایجنسی اے ایف پی کو بتایا کہ چالیس سالہ نیاز محمد کو پھانسی دے دی گئی ہے جبکہ اس کی لاش بھی لواحقین کے حوالے کر دی گئی ہے۔ اس پولیس اہلکار کا نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر کہنا تھا کہ نیاز محمد کو راولپنڈی میں پرویز مشرف پر حملہ کرنے کے جرم میں سزائے موت سنائی گئی تھی۔ یہ حملہ دسمبر 2003ء میں اس وقت کیا گیا تھا، جب سابق فوجی صدر پرویز مشرف کا قافلہ ایک پُل پر سے گزر رہا تھا۔ تاہم یہ قافلہ بم دھماکے سے کچھ ہی دیر پہلے اس پل پر سے گزر گیا تھا اور حملے میں کوئی شخص ہلاک یا زخمی نہیں ہوا تھا۔

پاکستان نے رواں ماہ پشاور اسکول حملے کے بعد گزشتہ چھ برسوں سے سزائے موت پر عمل درآمد پر عائد پابندی اٹھانے کا فیصلہ کیا تھا۔ تب سے اب تک دہشت گردی کے مختلف مقدمات میں سزا یافتہ سات مجرموں کو پھانسی دی جا چکی ہے۔ چند روز پہلے پاکستانی حکام نے اعلان کیا تھا کہ حکومت آئندہ دنوں میں پانچ سو تک مجرموں کو پھانسی دینے کا ارادہ رکھتی ہے۔ اس اعلان کے بعد بین الاقوامی برادری اور انسانی حقوق کی تنظیموں کی طرف سے ایک احتجاجی مہم بھی شروع کر دی گئی تھی۔ اقوام متحدہ، یورپی یونین، ایمنسٹی انٹرنیشنل اور ہیومن رائٹس واچ نے بھی پاکستان سے دوبارہ سزائے موت دینے پر پابندی عائد کرنے کا مطالبہ کیا ہے۔

چند روز پہلے اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل بان کی مون نے بھی پاکستانی وزیر اعظم نواز شریف سے اپیل کی تھی کہ پھانسی کی سزاؤں پر عمل درآمد بند کرتے ہوئے ملک ميں سزائے موت دیے جانے پر دوبارہ پابندی عائد کر دی جائے۔ تاہم پاکستانی وزیر اعظم نے بان کی مون کو یقین دہانی کرائی تھی کہ تمام قانونی اقدار کا احترام کیا جائے گا۔ لیکن اس کے چند روز بعد ہی وزیر اعظم نواز شریف کا سزائے موت پر عمل درآمد کا دفاع کرتے ہوئےکہنا تھا کہ غیر معمولی حالات میں غیر معمولی اقدامات ضروری ہو جاتے ہیں۔

انسانی حقوق کی تنظیموں اور ایمنسٹی انٹرنیشنل کے مطابق پاکستان میں آٹھ ہزار سے زائد قیدیوں کو سزائے موت سنائی جا چکی ہے اور ان میں سے زیادہ تر نے اپنی سزاؤں کی منسوخی کے لیے اعلیٰ عدالتوں میں درخواستیں بھی دائر کر رکھی ہیں۔

پاکستان میں سزائے موت کے حامی حلقوں کا کہنا ہے کہ عسکریت پسندی کی لعنت سے نمٹنے کا واحد مؤثر طریقہ سزائے موت ہی ہے۔ یہ بات اہم ہے کہ وزیر اعظم نواز شریف نے برسر اقتدار آتے ہی جرائم پیشہ عناصر اور عسکریت پسندوں کے خلاف کریک ڈاؤن کے تناظر میں سزائے موت پر عمل درآمد پر عائد پابندی ختم کر دی تھی۔ تاہم انسانی حقوق کی تنظیموں، یورپی یونین اور سابق صدر آصف علی زرداری کی جانب سے حکومتی فیصلے پر تنقید کے بعد اسلام آباد حکومت نے اپنے فیصلے کے دو ہفتے بعد ہی اس پابندی کی مدت میں عبوری توسیع کا اعلان بھی کر دیا تھا۔

یہ بات بھی قابل ذکر ہے کہ گزشتہ برس یورپی یونین نے پاکستان کو خبردار کیا تھا کہ اگر اس نے اپنے ہاں سزائے موت پر عمل درآمد دوبارہ شروع کیا، تو یورپی یونین پاکستان کے ساتھ اپنے ترجیحی تجارتی معاہدے کو ختم کر سکتی ہے۔