1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

پاکستان: سزائے موت پر عائد پابندی مکمل طور پر ختم

امتیاز احمد10 مارچ 2015

پاکستان نے سزائے موت پر عائد پابندی مکمل طور پر ختم کر دی ہے۔ صوبائی حکومتوں کو ہدایات دی گئی ہیں کہ سزائے موت کے ایسے تمام مجرموں کو، جن کی اپیلیں مسترد اور معافی کی تمام راہیں بند ہو چکی ہیں، پھانسی پر لٹکا دیا جائے۔

https://p.dw.com/p/1EoFi
Galgenstrick / Galgen / Hinrichtung
تصویر: picture-alliance/dpa

پاکستانی وزارت داخلہ کے ایک سینئر عہدیدار نے نیوز ایجنسی اے ایف پی سے گفتگو کرتے ہوئے کہا ہے، ’’چاروں صوبائی حکومتوں کی ہدایات جاری کی گئی ہیں کہ سزائے موت کے ایسے تمام مجرموں کو، جن کی تمام اپیلیں مسترد ہو چکی ہیں اور معافی کی تمام راہیں بند ہو چکی ہیں، پھانسی پر لٹکا دیا جائے۔ یہ بھی کہا گیا ہے کہ سزائے موت پر عملدرآمد کیا جائے، چاہے ان مجرموں کا تعلق دہشت گردی کے مقدمات سے ہو یا نہیں۔ نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر اس اہلکار کا کہنا تھا، ’’حکومت نے تمام قسم کے مقدمات میں سزائے موت پر عائد پابندی ختم کر دی ہے۔‘‘ ایک دوسرے سرکاری اہلکار نے بھی ان خبروں کی تصدیق کی ہے۔

قبل ازیں پاکستان کی طرف سے دہشت گردی کے مقدمات میں سزائے موت کے حوالے سے عمل درآمد کا فیصلہ پشاور اسکول پر طالبان کے دہشت گردانہ حملے کے بعد کیا گیا تھا۔ دسمبر کے بعد سے پاکستان دہشت گردی کے مقدمات کے تحت چوبیس مجرموں کو سزائے موت دے چکا ہے۔

دسمبر میں پاکستانی وزیر اعظم نواز شریف کا زور دیتے ہوئے کہنا تھا کہ کہ سکیورٹی فورسز جن ملزموں کو گرفتار کرتی ہیں، وہ کسی نہ کسی طریقے سے رہا ہو جاتے ہیں اور رہائی کے بعد دوبارہ عسکریت پسند گروپوں میں شامل ہو جاتے ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ دہشت گردی سے متعلق تمام عدالتیں اس معاملے میں غیر مؤثر ثابت ہو رہی ہیں اور اگر کسی عدالت میں کیس چلا بھی جائے، تو جج ایک فون آنے کے بعد کوئی فیصلہ دینے سے انکار کر دیتا ہے۔

دسمبر میں اس اعلان کے بعد بین الاقوامی برادری اور انسانی حقوق کی تنظیموں کی طرف سے ایک احتجاجی مہم بھی شروع کر دی گئی تھی۔ اقوام متحدہ، یورپی یونین، ایمنسٹی انٹرنیشنل اور ہیومن رائٹس واچ نے بھی پاکستان سے دوبارہ سزائے موت دینے پر پابندی عائد کرنے کا مطالبہ کیا تھا۔

سن 2008ء سے پاکستان نے اپنے ہاں سزائے موت پانے والے سویلین مجرموں کو پھانسی دینے پر ایک طرح سے پابندی عائد کر رکھی تھی۔ اس دوران صرف نومبر 2012ء میں کورٹ مارشل کے ایک فوجی مجرم کو تختہء دار پر لٹکایا گیا تھا۔

انسانی حقوق کی تنظیموں اور ایمنسٹی انٹرنیشنل کے مطابق پاکستان میں آٹھ ہزار سے زائد قیدیوں کو سزائے موت سنائی جا چکی ہے اور ان میں سے زیادہ تر نے اپنی سزا کی منسوخی کے لیے اعلیٰ عدالتوں میں درخواستیں دائر کر رکھی ہیں۔

پاکستان میں سزائے موت کے حامی حلقوں کا کہنا ہے کہ عسکریت پسندی کی لعنت سے نمٹنے کا واحد مؤثر طریقہ سزائے موت ہی ہے۔ ان حلقوں کے مطابق پاکستان کا عدالتی نظام فرسودہ اور انتہائی سست ہے۔ دوسری جانب ججوں، پراسیکیوٹرز اور گواہوں کو بھی کوئی تحفظ فراہم نہیں کیا جاتا۔ اس کا مطلب یہ بھی ہے کہ دہشت گردی سے متعلق مقدمات میں قانونی کارروائی انتہائی مشکل ہے۔

یہ بات اہم ہے کہ وزیر اعظم نواز شریف نے برسر اقتدار آتے ہی جرائم پیشہ عناصر اور عسکریت پسندوں کے خلاف کریک ڈاؤن کے تناظر میں سزائے موت پر عمل درآمد پر عائد پابندی ختم کر دی تھی۔ تاہم انسانی حقوق کی تنظیموں، یورپی یونین اور سابق صدر آصف زرداری کی جانب سے حکومتی فیصلے پر تنقید کے بعد اسلام آباد حکومت نے فیصلے کے دو ہفتے بعد ہی اس پابندی میں عبوری توسیع کا اعلان کر دیا تھا۔