1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

نیٹو اتحاد جہاں چاہے فوجی تعینات کر سکتا ہے، سٹولٹن برگ

عصمت جبیں6 اکتوبر 2014

مغربی دفاعی اتحاد نیٹو کے نئے سیکرٹری جنرل ژینس سٹولٹن برگ نے کہا ہے کہ یہ تنظیم جہاں چاہے اپنے فوجی تعینات کر سکتی ہے۔ ساتھ ہی انہوں نے یہ بھی کہا ہے کہ نیٹو روس کے ساتھ تعمیری روابط کا خواہش مند ہے۔

https://p.dw.com/p/1DQOJ
سٹولٹن برگ، بائیں، پولینڈ کے صدر کوموروفسکی کے ساتھتصویر: picture-alliance/dpa/Pawel Supernak

پولینڈ کے دارالحکومت وارسا سے ملنے والی رپورٹوں کے مطابق سٹولٹن برگ نے یہ بات نیٹو کے رکن اس ملک کے اپنے ایک دورے کے دوران کہی۔ سٹولٹن برگ نے اتوار کی رات وارسا میں کہا کہ نیٹو نے بین الاقوامی سطح پر جو وعدے کر رکھے ہیں، وہ ابھی تک ان کا احترام کرتا ہے۔ ان میں سرد جنگ کے دور کے بعد ماسکو کے ساتھ طے کردہ وہ معاہدہ بھی شامل ہے، جو کالعدم سوویت بلاک کی سابقہ رکن ریاستوں میں مغربی دفاعی اتحاد کے فوجی دستوں کی تعیناتی کا احاطہ کرتا ہے۔

NATO Generalsekretär Jens Stoltenberg Polen mit Ewa Kopacz
سٹولٹن برگ پولینڈ کی خاتون وزیر اعظم کے ہمراہتصویر: picture-alliance/dpa/Leszek Szymanski

موجودہ روس اور نیٹو کے مابین کھچاؤ کی وجوہات میں یہ بھی شامل ہے کہ روس نے چند ماہ قبل پہلے تو یوکرائن کے نیم خود مختار علاقے کریمیا کو وہاں ہونے والے ایک ریفرنڈم کے نتیجے میں اپنے ریاستی علاقے میں شامل کر لیا تھا۔ پھر مشرقی یوکرائن میں مسلح بغاوت کے پس منظر میں مغربی ممالک روس پر یہ الزام بھی لگاتے ہیں کہ وہ کییف حکومت کے مخالف ماسکو نواز یوکرائنی علیحدگی پسندوں کی عسکری مدد بھی کر رہا ہے۔

قریب ایک ماہ قبل ہونے والے نیٹو کے ایک سربراہی اجلاس میں رکن ملکوں کے رہنماؤں نے فیصلہ کیا تھا کہ اس سریع الحرکت فورس کی تشکیل کا کام تیز رفتار کر دیا جائے گا، جسے کسی بھی بحرانی علاقے میں دنوں کے اندر اندر تعینات کیا جا سکے گا۔ لیکن اسی اجلاس میں شرکاء نے نیٹو میں شامل مشرقی یورپی ملکوں، جن میں پولینڈ بھی شامل تھا، کی یہ درخواست مسترد کر دی تھی کہ ان ریاستوں میں نیٹو کے ہزاروں فوجیوں کو مستقل تعینات کیا جائے۔

نیٹو رہنماؤں کے اس انکار کی ایک وجہ تو مالیاتی تھی کیونکہ ایسی کسی بھی تعیناتی پر اربوں کی رقوم خرچ ہوتیں۔ دوسری وجہ یہ تھی کہ نیٹو اتحاد 1997ء میں روس کے ساتھ کیے گئے اپنے اس معاہدے کی بھی خلاف ورزی نہیں کرنا چاہتا تھا کہ مشرقی یورپ میں نیٹو کے جنگی دستے مستقل بنیادوں پر تعینات نہیں کیے جائیں گے۔

اس پس منظر میں سٹولٹن برگ نے نیٹو کے دائرہ کار کے اندر رہتے ہوئے پولینڈ سے متعلق سخت موقف اپناتے ہوئے کہا کہ اگلے برس نیٹو کے ایک وزارتی اجلاس میں سریع الحرکت فوج کے بارے میں بھی فیصلے کیے جائیں گے۔ نیٹو کے نئے سربراہ نے، جو ماضی میں ناروے کے وزیر اعظم رہ چکے ہیں اور جنہوں نے اس اتحاد کے سربراہ کے طور پر اپنے فرائض بدھ یکم اکتوبر سے سنبھالے ہیں، پولینڈ کے سرکاری ٹیلی وژن TVP کے ساتھ ایک انٹرویو میں کہا، ’’نیٹو کے پاس ایک طاقتور فوج موجود ہے۔ ہم اسے جہاں چاہیں تعینات کر سکتے ہیں۔‘‘

Jens Stoltenberg neuer NATO Generalsekretär PK 01.10.2014
سٹولٹن برگ ناروے کے وزیر اعظم رہ چکے ہیںتصویر: Reuters/Francois Lenoir

اسی دوران ژینس سٹولٹن برگ کے آج پیر کے روز پولینڈ کے ایک اخبار میں شائع ہونے والے ایک انٹرویو کے مطابق نیٹو اتحاد اگرچہ اپنی رکن مشرقی یورپی ریاستوں میں اپنی موجودگی میں اضافہ کر رہا ہے، تاہم وہ روس کے ساتھ آئندہ بھی تعمیری روابط کا خواہش مند ہے۔

نیٹو سیکرٹری جنرل سٹولٹن برگ نے اس انٹرویو میں کہا، ’’ایک مضبوط نیٹو اور روس کے ساتھ تعمیری تعلقات کے قیام کے مابین کوئی تضاد نہیں ہے۔ ہم اپنے طے کردہ بین الاقوامی معاہدوں کی خلاف ورزی کیے بغیر اپنی سکیورٹی کو مضبوط بنا رہے ہیں۔‘‘

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں

اس موضوع سے متعلق مزید