نیٹو اتحاد جہاں چاہے فوجی تعینات کر سکتا ہے، سٹولٹن برگ
6 اکتوبر 2014پولینڈ کے دارالحکومت وارسا سے ملنے والی رپورٹوں کے مطابق سٹولٹن برگ نے یہ بات نیٹو کے رکن اس ملک کے اپنے ایک دورے کے دوران کہی۔ سٹولٹن برگ نے اتوار کی رات وارسا میں کہا کہ نیٹو نے بین الاقوامی سطح پر جو وعدے کر رکھے ہیں، وہ ابھی تک ان کا احترام کرتا ہے۔ ان میں سرد جنگ کے دور کے بعد ماسکو کے ساتھ طے کردہ وہ معاہدہ بھی شامل ہے، جو کالعدم سوویت بلاک کی سابقہ رکن ریاستوں میں مغربی دفاعی اتحاد کے فوجی دستوں کی تعیناتی کا احاطہ کرتا ہے۔
موجودہ روس اور نیٹو کے مابین کھچاؤ کی وجوہات میں یہ بھی شامل ہے کہ روس نے چند ماہ قبل پہلے تو یوکرائن کے نیم خود مختار علاقے کریمیا کو وہاں ہونے والے ایک ریفرنڈم کے نتیجے میں اپنے ریاستی علاقے میں شامل کر لیا تھا۔ پھر مشرقی یوکرائن میں مسلح بغاوت کے پس منظر میں مغربی ممالک روس پر یہ الزام بھی لگاتے ہیں کہ وہ کییف حکومت کے مخالف ماسکو نواز یوکرائنی علیحدگی پسندوں کی عسکری مدد بھی کر رہا ہے۔
قریب ایک ماہ قبل ہونے والے نیٹو کے ایک سربراہی اجلاس میں رکن ملکوں کے رہنماؤں نے فیصلہ کیا تھا کہ اس سریع الحرکت فورس کی تشکیل کا کام تیز رفتار کر دیا جائے گا، جسے کسی بھی بحرانی علاقے میں دنوں کے اندر اندر تعینات کیا جا سکے گا۔ لیکن اسی اجلاس میں شرکاء نے نیٹو میں شامل مشرقی یورپی ملکوں، جن میں پولینڈ بھی شامل تھا، کی یہ درخواست مسترد کر دی تھی کہ ان ریاستوں میں نیٹو کے ہزاروں فوجیوں کو مستقل تعینات کیا جائے۔
نیٹو رہنماؤں کے اس انکار کی ایک وجہ تو مالیاتی تھی کیونکہ ایسی کسی بھی تعیناتی پر اربوں کی رقوم خرچ ہوتیں۔ دوسری وجہ یہ تھی کہ نیٹو اتحاد 1997ء میں روس کے ساتھ کیے گئے اپنے اس معاہدے کی بھی خلاف ورزی نہیں کرنا چاہتا تھا کہ مشرقی یورپ میں نیٹو کے جنگی دستے مستقل بنیادوں پر تعینات نہیں کیے جائیں گے۔
اس پس منظر میں سٹولٹن برگ نے نیٹو کے دائرہ کار کے اندر رہتے ہوئے پولینڈ سے متعلق سخت موقف اپناتے ہوئے کہا کہ اگلے برس نیٹو کے ایک وزارتی اجلاس میں سریع الحرکت فوج کے بارے میں بھی فیصلے کیے جائیں گے۔ نیٹو کے نئے سربراہ نے، جو ماضی میں ناروے کے وزیر اعظم رہ چکے ہیں اور جنہوں نے اس اتحاد کے سربراہ کے طور پر اپنے فرائض بدھ یکم اکتوبر سے سنبھالے ہیں، پولینڈ کے سرکاری ٹیلی وژن TVP کے ساتھ ایک انٹرویو میں کہا، ’’نیٹو کے پاس ایک طاقتور فوج موجود ہے۔ ہم اسے جہاں چاہیں تعینات کر سکتے ہیں۔‘‘
اسی دوران ژینس سٹولٹن برگ کے آج پیر کے روز پولینڈ کے ایک اخبار میں شائع ہونے والے ایک انٹرویو کے مطابق نیٹو اتحاد اگرچہ اپنی رکن مشرقی یورپی ریاستوں میں اپنی موجودگی میں اضافہ کر رہا ہے، تاہم وہ روس کے ساتھ آئندہ بھی تعمیری روابط کا خواہش مند ہے۔
نیٹو سیکرٹری جنرل سٹولٹن برگ نے اس انٹرویو میں کہا، ’’ایک مضبوط نیٹو اور روس کے ساتھ تعمیری تعلقات کے قیام کے مابین کوئی تضاد نہیں ہے۔ ہم اپنے طے کردہ بین الاقوامی معاہدوں کی خلاف ورزی کیے بغیر اپنی سکیورٹی کو مضبوط بنا رہے ہیں۔‘‘