مشرقی یوکرائن ایک جنگی علاقہ، لیکن محاذ کے بغیر
21 اپریل 2014سلاویانسک ایک ایسا چھوٹا سا شہر ہے جو دونیتسک سے 110 کلو میٹر شمال کی طرف واقع ہے۔ مشرقی یوکرائن میں روس نواز علیحدگی پسندوں کی مسلح تحریک کا مرکز یہی شہر ہے۔ وہاں بڑی تعداد میں سڑکوں پر ایسے مسلح کارکن نظر آتے ہیں جن کی یونیفارم پر کوئی مخصوص عسکری نشان نہیں ہوتا اور جنہیں وہاں کے عام شہری ان کی یونیفارم کے رنگ کی وجہ سے ’گرین پیپل‘ یا ’سبز افراد‘ کا نام دیتے ہیں۔
اسی علاقے میں دونیتسک سے گاڑی پر محض 20 منٹ کے سفر کے بعد سڑکوں پر ایسی رکاوٹیں نظر آنے لگتی ہیں جہاں سے گزرنے والی ہر گاڑی اور اس میں سوار افراد کی تلاشی لی جاتی ہے۔ وہیں سے سیاہ، سرخ اور نیلے رنگ کے وہ پرچم بھی لہراتے نظر آنے لگتے ہیں، جنہیں وہاں موجود مسلح باغی ’عوامی جمہوریہ دونیتسک‘ کے جھنڈے قرار دیتے ہیں۔
دونیتسک سے سلاویانسک جاتے ہوئے جیسے جیسے انسان دونیتسک سے دور ہوتا جاتا ہے، سڑکوں پر روس نواز مسلح علیحدگی پسندوں کی طرف سے کھڑی کردہ رکاوٹوں کی تعداد بھی زیادہ ہوتی جاتی ہے۔ اسی علاقے میں زیتون کے رنگ کی ایک میلی سی جیکٹ پہنے ہوئے ایک 40 سالہ شخص نے ڈوئچے ویلے کو بتایا کہ اسے اور اس کے ساتھیوں کو اس بات کی کوئی پرواہ نہیں کہ جنیوا کے کسی نئے یا پرانے معاہدے میں کیا لکھا ہے۔
مشرقی یوکرائن کے روسی زبان بولنے والے اس شہری نے کہا، ’’ہم یہ نہیں چاہتے کہ دونیتسک کوئی چھوٹی سی خود مختار جمہوریہ بن جائے، ہم اس خطے کے روس کے ساتھ الحاق کے بھی حامی نہیں ہیں۔ ہم صرف یہ چاہتے ہیں کہ مئی کے اوائل میں اس کا فیصلہ ایک عوامی ریفرنڈم کے ذریعے کیا جانا چاہیے۔‘‘
دونیتسک سے قریب ڈیڑھ گھنٹے کی مسافت پر ایک اور شہر آتا ہے، جس کا نام کراماٹورسک اور آبادی ایک لاکھ 65 ہزار کے قریب ہے۔ اس شہر میں یوکرائن کے قومی پرچم کے رنگوں سے جگہ جگہ لکھا ہے کہ ’یوکرائن ایک ہے‘ اور ’یوکرائن متحد ہے‘۔ لیکن ساتھ ہی ایسے کئی بڑے بڑے پوسٹرز میں سے چند ایک پر کسی نے وہاں ’یوکرائن ایک ہے‘ کے جملے کے نیچے یہ بھی لکھ دیا ہے، ’یہ جھوٹ ہے‘۔
سلاویانسک کا شہر کراماٹورسک سے صرف 15 کلو میٹر کے فاصلے پر ہے۔ وہاں تو جگہ جگہ روس نواز مسلح علیحدگی پسند نظر آتے ہیں۔ ان نقاب پوش مسلح باغیوں نے اس شہر پر کئی ہفتے پہلے سے قبضہ کر رکھا ہے۔ انہیں شہری انتظامیہ کے دفاتر سمیت بہت سی سرکاری عمارات پر کنٹرول حاصل ہے۔
اس شہر میں کئی عام شہریوں نے ڈوئچے ویلے کے ساتھ بات چیت میں اعتراف کیا کہ وہ سلاویانسک کے روس کے ساتھ الحاق کے حامی ہیں۔ ایسے مقامی افراد نے اپنی رائے دیتے ہوئے جو ایک جملہ بار بار کہا، وہ یہ تھا، ’’روس ایک امیر ملک ہے۔ ہم صرف بہتر زندگی چاہتے ہیں۔‘‘
کریمیا کے روس کے ساتھ الحاق کے بعد سے مشرقی یوکرائن میں جو بدامنی دیکھنے میں آ رہی ہے، وہ وہاں وقفے وقفے سے ہونے والی خونریزی اور مخالف عسکری طاقتوں کے مابین کشیدگی کی وجہ سے اس علاقے کو گویا ایک جنگی خطہ بنا چکی ہے۔ لیکن اس جنگی علاقے میں کوئی واضح محاذ دیکھنے میں نہیں آتا۔ دوسری طرف یہ بھی سچ ہے کہ محاذِ جنگ اگر قریب سے نظر نہ آئے تو اس کا مطلب یہ نہیں کہ کسی خطے کو جنگی حالات کا سامنا نہیں ہو سکتا۔