1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

روسی فوجی تعیناتی اپنی سرزمین کی سلامتی اور دفاع کے لیے ہے، کریملن

کشور مصطفیٰ19 اپریل 2014

کریملن کے ایک ترجمان نے اپنے ایک بیان میں کہا ہے کہ یوکرائن کی سرحدوں کے نزدیک اضافی روسی فورسز کی تعیناتی دراصل یوکرائن میں عدم استحکام اور بدامنی کے رد عمل کے طور پر عمل میں لائی گئی تھی۔

https://p.dw.com/p/1Bl6I
تصویر: Reuters/Alexei Nikolskyi/RIA Novosti

گزشتہ جمعرات کو جینیوا میں یورپی یونین، روس، امریکا اور یوکرائن کے مابین طے پانے والا معاہدہ مشرق و مغرب کے مابین بڑھتی ہوئی کشیدگی کو روکنے کے ضمن میں امید کی ایک کرن ثابت ہوئی ہے۔ یوکرائن کے تنازعے کے سبب مغربی بلاک اور روس کے درمیان سرد جنگ کے بعد سے اب تک کے سب سے گہرے اختلافات سامنے آئے جسے عالمی سلامتی اور امن کے تناظر میں تشویش ناک قرار دیا جا رہا تھا۔

آج ہفتے کے روز روسی وزارت خارجہ نے وعدہ کیا ہے کہ روس یوکرائن کو بحران سے نکالنے کے لیے اُس کی ہرممکن مدد کرے گا تاہم وزارت کے مطابق حالات میں کشیدگی کم کرنے کی حتمی ذمہ داری یوکرائنی حکام کی ہے نہ کہ بیرونی طاقتوں کی۔

روسی وزارت خارجہ کی طرف سے یہ بیانات جنیوا میں دو روز قبل ہونے والے چہار فریقی مذاکرات کے بعد سامنے آئے ہیں۔ اُدھر کریملن کے ایک ترجمان نے اپنے ایک بیان میں کہا ہے کہ یوکرائن کی سرحدوں کے نزدیک اضافی روسی فورسز کی تعیناتی دراصل یوکرائن میں عدم استحکام اور بدامنی کے رد عمل کے طور پر عمل میں لائی گئی تھی۔ روس کی طرف سے یہ بیان روس کے ماضی کے اُس بیان کی تردید ہے جس میں کہا گیا تھا کہ روسی فوجی سرحدی علاقے میں اپنی روٹین کی مشقوں کے لیے تعینات کیے گئے ہیں۔

Ukraine Donetsk Separatisten Besetzer
ڈونیٹسک میں روس نواز باغیوں کا قبضہتصویر: DW/O. Sawitski

روسی صدر کے ترجمان دیمتری پشکوف نے روسیا ون ٹیلی وژن چینل پر اپنے بیان میں کہا، ’’یوکرائن کی سرحد کے نزدیک ہم نے اپنے فوجی تعینات کیے ہیں۔ ان میں سے کچھ فوجی مستقل طور پر وہیں تعینات ہیں جبکہ دیگر فوجیوں کی تعیناتی یوکرائن کی صورتحال کے پس منظر میں عمل میں لائی گئی تھی۔‘‘ پشکوف نے مزید کہا، ’’میں معذرت کے ساتھ یہ کہنا چاہتا ہوں کہ یوکرائن ابھی حال ہی میں ایک فوجی بغاوت سے گزرا ہے، ایسے میں اس کا پڑوسی کوئی بھی ملک ہو، وہ اپنی سرحدوں کی حفاظت کے لیے خاص قسم کے اقدامات کرے گا۔‘‘

صدر پوٹن کے ترجمان کا کہنا ہے کہ ایک خود مختار ریاست کی حیثیت سے روس بغیر کسی پابندی یا روک ٹوک کے اپنی سرزمین کے کسی بھی حصے میں اپنی فوج تعینات کرنے کا حق رکھتا ہے۔ پشکوف نے ان الزامات کو رد کیا جن کے تحت روسی فوج نے یوکرائن کی سر زمین پر رونما ہونے والے واقعات کے دوران کسی قسم کی مداخلت کی ہے۔ انہوں نے کہا کہ اس قسم کے دعوے غلط اور بے بنیاد ہیں۔

Ukraine Julia Timoschenko Rede Maidan 22. Feb. 2014
یولیا ٹیمو شینکو ڈونیٹسک پہنچ چُکی ہیںتصویر: Reuters

اُدھر اتار تاس نیوز ایجنسی کے مطابق روسی صدر ولادیمیر پوٹن نے سرکاری ٹیلی وژن کو ایک انٹر ویو دیتے ہوئے اس امید کا اظہار کیا کہ مغربی دنیا کے ساتھ روس کے تعلقات جلد بحال ہو جائیں گے۔ مزید یہ کہ وہ تعلقات کی بہتری کی راہ میں کوئی رکاوٹ نہیں دیکھ رہے ہیں۔ پوٹن سے کیے گئے اس سوال کے جواب میں کہ کیا روس اور مغربی ممالک کے تعلقات رواں سال کے اواخر تک بہتر ہونے کی امید کی جا سکتی ہے؟ پوٹن کا کہنا تھا، ’’اس کا انحصار صرف اور صرف ہم پر نہیں بلکہ ہمارے ساتھیوں پر ہے۔‘‘ پوٹن نے مزید کہا کہ انہیں مغربی دنیا اور روس کے تعلقات میں بہتری کی راہ میں کوئی رکاوٹ نظر نہیں آتی۔‘‘ تاہم جمعہ 18 اپریل کو یوکرائن کے روس نواز گروپوں نے یوکرائن کے تنازعے کو حل کرنے کے لیے طے پانے والے جنیوا معاہدے کو مسترد کر تے ہوئے کہا تھا کہ جب تک کییف کی عبوری حکومت مستعفی نہیں ہوتی وہ پیچھے نہیں ہٹیں گے۔ جنیوا معاہدے میں روس نواز مسلح گروپوں سے سرکاری عمارات اور مقامات سے فوری طور پر قبضہ ختم کرنے کو کہا گیا تھا۔ اس کے باجود مظاہرین کی جانب سے سرکاری املاک کا کنٹرول حاصل کرنے کے واقعات منظر عام پر آئے تھے۔

دریں اثناء یوکرائن کی سابق وزیر اعظم اور صدارتی امیدوار یولیا ٹیمو شینکو نے آج ہفتہ 19 اپریل کو یوکرائن کی تمام سیاسی پارٹیوں سے اُس گول میز کانفرنس میں شرکت کی اپیل کی جس کا مقصد ملک کو مزید بحران اور اس کا شیرازہ بکھرنے سے بچانے کے لیے مذاکرات کرنا ہے۔ ان مذاکرات کے لیے کسی تاریخ کا فی الحال اعلان نہیں ہوا ہے تاہم اطلاعات کے مطابق یولیا ٹیمو شینکو ڈونیٹسک پہنچ چُکی ہیں۔ یہی وہ شورش زدہ علاقہ ہے جہاں روس نواز باغی یوکرائن سے علیحدگی کا مطالبہ کرتے ہوئے ریلیاں نکال رہے ہیں۔