مجموعی ترقی سمندروں کے تحفظ سے بھی مشروط
25 جنوری 2012اقوام متحدہ کے ذیلی ادارے UNEP نے اپنی اس رپورٹ کو کئی دوسری ایجنسیوں کی معاونت سے مکمل کیا ہے۔ اس مناسبت سے سمندروں کے تحفظ سے مختلف ملکوں کی اقتصادیات کو بہت سے فائدے ہو سکتے ہیں۔ اقوام متحدہ کی اس رپورٹ میں گرین انویسٹمنٹ کو marine-based معیشت کا نہ صرف حصہ بلکہ وقت کی اہم ضرورت بھی قرار دیا گیا ہے۔
اس وقت ترقی یافتہ، ترقی پذیر اورغریب اقوام رواں برس جون میں برازیل کے شہر ریو ڈی جینیرو میں ہونے والی ارتھ سمٹ کے سلسلے میں تیاریوں میں مصروف ہیں۔ یہ رپورٹ بھی اس کانفرنس میں پیش کی جائے گی۔ اس رپورٹ کا عنوان ہے: Green Economy in a Blue Worldb
رپورٹ کے مطابق دنیا کی کل آبادی کا 40 فیصد حصہ سمندروں اور ساحلوں کے ساتھ جڑے ایک سو کلو میٹر تک کے علاقوں میں آباد ہے۔ اس مناسبت سے سمندروں کا ماحول انسان اور اس کی بقا کے لیے انتہائی اہم ہے۔ کروڑوں انسانوں کی روزمرہ کی ضروریات کا انحصار سمندری حیات اور اس سے وابستہ کاروبار پر ہے۔ یہ ساحل ان افراد کے لیے خوراک کا ذریعہ اور رہائشی ٹھکانے بھی ہیں۔ اس وقت سمندری پانی اور اس میں موجود نباتات اور حیوانات کو مختلف ملکوں کے ساحلی شہروں سے کیمیاوی اور دوسرے مضر اجزاء کا سامنا ہے۔ عام طور پر خیال کیا جاتا ہے کہ انسانوں نے اسے اپنا وطیرہ بنا لیا ہے کہ ہر غلاظت کو سمندر برد کر دیا جائے۔ اس کے ساتھ ساتھ سمندروں میں ہونے والے حادثے بھی سمندری حیات کے لیے سنگین خطرہ خیال کیے جاتے ہیں۔
اقوام متحدہ کی اس رپورٹ میں واضح کیا گیا ہے کہ سمندر کو محفوظ بنانے کے بعد اسے توانائی کا متبادل ماخذ بھی بنایا جا سکتا ہے۔ اس وقت ساحلی اور سمندر کے اندر ہوا سے بجلی پیدا کرنے پر کئی یورپی ملک توجہ مرکوز کیے ہوئے ہیں۔ ان میں ناروے کی مثال خاص طور پر دی جا سکتی ہے۔ جرمنی تو متبادل توانائی کے حصول میں ورلڈ لیڈر ہے۔ سمندری لہروں اور ان کی طاقت کے ساتھ ساتھ ساحل تک پہنچنے والی تیز ہوا بھی توانائی کے اہم متبادل ہیں لیکن ابھی تک صرف ایک فیصد اقوام ہی ان سے فائدہ اٹھا رہی ہیں۔ یہ ٹیکنالوجی خاصی مہنگی ہے اور غریب اقوام کی دسترس سے باہر ہے۔ ایسے اندازے لگائے گئے ہیں کہ سن 2020 تک سمندر سے توانائی کے حصول میں اضافے کا امکان کم ہے۔ اقوام متحدہ کے ماحولیاتی پروگرام کے ایگزیکٹو ڈائریکٹر آخم شٹائنر (Achim Steiner) نے یہ رپورٹ عام کرتے ہوئے سمندر کو ماحول دوست توانائی اور اقتصادیات کا ایک بڑا منبع قرار دیا۔ سمندری علوم کے ماہرین زمین پر پھیلے وسیع و عریض سمندروں کو معدنی ذخائر کا بے بہا خزانہ سمجھتے ہیں۔
یو این ای پی کے ایگزیکٹو ڈائریکٹر آخم شٹائنر کے مطابق زرعی اراضی پر فصل کی زیادہ سے زیادہ پیداوار کی خاطر کیمیاوی کھاد متعارف کروانے سے یہ معاملہ تو حل ہو گیا ہے لیکن بارشوں اور سیلابی پانی سے نائٹروجن اور فاسفورس کے مرکبات والے فرٹیلائزرز کسی بھی طور سمندروں کے لیے فائدہ مند نہیں ہیں۔ رپورٹ کے مطابق اگر اس صورت حال پر قابو نہ پایا گیا تو سن 2050 تک سمندروں میں پہنچنے والے ان مادوں کا حجم، جن میں خاص طور پر نائٹروجن کی موجودگی زیادہ ہے، مزید تین فیصد بڑھ جائے گا۔
یورپی یونین کو سمندری آلودگی سے تحفظ یا اس کے تدارک پر سالانہ 100 ارب ڈالر سے ز ائد کے برابر وسائل خرچ کرنا پڑ رہے ہیں۔ ورلڈ بینک اور خوراک و زراعت کے عالمی ادارے کا خیال ہے کہ اگر بحور سے اقتصادی فائدہ اٹھایا جائے تو مختلف اقوام پچاس ارب ڈالر تک اس گرین اکانومی سے کما کر کے اپنی اپنی معیشت کو بہتر انداز میں استوار کر سکتے ہیں۔ مبصرین کا خیال ہے کہ زیادہ سے زیادہ مالی فائدے کی پیشکش سے پرائیویٹ سیکٹر اس مد میں سرمایہ کاری کر نے کے بارے میں سوچ سکتا ہے۔
رپورٹ: عابد حسین
ادارت: مقبول ملک