بی پی کو پچیس بلین ڈالر دینا پڑ سکتے ہیں
20 جنوری 2012برٹش پٹرولیم اور اس کے معاونین پر مقدمہ ستائیس فروری کو امریکہ میں نیو اورلینز میں شروع ہوگا۔ بیس اپریل دو ہزا دس کو خلیج میکسیکو میں زیر سمندر بی پی کی تیل کی ایک رِگ پھٹ جانے کے باعث گیارہ افراد ہلاک ہو گئے تھے۔ ستاسی روز تک اس جگہ سے تیل کا مسلسل اخراج ہوتا رہا۔ ایک اندازے کے مطابق اس حادثے کے باعث دو سو چھ ملین گیلن تیل سمندر میں بہہ گیا تھا۔
برٹش پٹرولیم کو متعدد الزامات کا سامنا ہے، جن میں انسانی جانوں کے ضیاع کے علاوہ مالی نقصان، امدادی کارکنوں کی صحت کو نقصان، ماحولیاتی قوانین کی خلاف ورزی اور قدرتی وسائل کو نقصان پہنچانے جیسے الزامات شامل ہیں۔
ماہرین کا خیال ہے کہ مقدمے کا کوئی نتیجہ سامنے آنے میں کئی برس لگ سکتے ہیں۔ مورگن اسٹینلے کے ماہر مارٹن ریٹس کا کہنا ہے، ’برٹش پٹرولیم اور امریکی محکمہ انصاف دونوں جانتے ہیں کہ مقدمے کا فیصلہ غیر متوقع ہو سکتا ہے، اور جو قیمت چکانا پڑ سکتی ہے وہ بہت زیادہ ہے‘۔ ریٹس کا کہنا ہے کہ عدالت کے باہر کسی سمجھوتے میں نہ صرف یہ کہ بی پی کو سول چارجز ادا کرنا ہوں گے بلکہ کرمنل چارجز بھی۔ ’’ہمارا اندازہ ہے کہ بی پی کو بیس سے پچیس بلین ڈالر تک کی رقم ادا کرنا پڑ سکتی ہے۔‘‘
ریٹس کا یہ بھی کہنا ہے کہ یہ رقم ان بارہ بلین ڈالر سے کہیں زیادہ ہے جو کہ بی پی نے ہرجانے کی ادائیگی کے ضمن میں رکھی ہے۔
امکان ظاہر کیا جا رہا ہے کہ بی پی کی طرف سے سمجھوتے کا اعلان سات فروری کو کیا جا سکتا ہے۔
خلیج میکسیکو میں پیش آنے والے اس واقعے کی امریکی انتظامیہ اور امریکی صدر باراک اوباما نے شدید مذمت کی تھی۔ امریکی ماہرین ماحولیات اور ماحولیاتی کارکنوں نے واشنگٹن حکومت پر زور دیا تھا کہ مستقبل میں اس نوعیت کے واقعات کی روک تھام کے لیے ٹھوس اقدامات کیے جائیں۔
رپورٹ: شامل شمس ⁄ خبر رساں ادارے
ادارت: مقبول ملک