1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

شام: ہولناک تصاویر سلامتی کونسل میں

امجد علی15 اپریل 2014

عالمی سلامتی کونسل آج بند کمرے میں ہونے والے اپنے ایک اجلاس میں ایسی تصاویر دیکھے گی، جن میں عرب ملک شام میں جاری خانہ جنگی کے دوران انسانوں کی جانب سے انسانوں پر روا رکھے جانے والے ہولناک مظالم دکھائے گئے ہیں۔

https://p.dw.com/p/1Bi88
’سیزر‘ کی اتاری ہوئی اس تصویر میں شامی حکومت کی حراست میں ہلاک ہونے والے ایک شخص کی لاش دکھائی گئی ہے
’سیزر‘ کی اتاری ہوئی اس تصویر میں شامی حکومت کی حراست میں ہلاک ہونے والے ایک شخص کی لاش دکھائی گئی ہےتصویر: Reuters

ان تصاویر میں نوجوانوں کی ایسی اکڑی ہوئی فاقہ زدہ لاشیں دکھائی گئی ہیں، جن میں صرف اُن کی ہڈیاں نظر آ رہی ہیں۔ شامی خانہ جنگی کے دوران تشدد اور اذیت کی ایک صورت یہ بھی تھی کہ قیدیوں کو بھوکا رکھا جاتا تھا۔ کچھ لاشوں کو دیکھتے ہی پتہ چل جاتا ہے کہ اُنہیں پھانسی دی گئی تھی۔ دیگر کے جسموں پر زخموں اور کوڑوں کے نشان ہیں۔

سلامتی کونسل کے اس اجلاس کی میزبانی فرانس کر رہا ہے، جس کا کہنا ہے کہ کونسل کے ارکان کو اُن پچپن ہزار تصاویر میں سے چند تصاویر دکھائی جائیں گی، جن میں ایسے شامی شہریوں کی لاشیں دیکھی جا سکتی ہیں، جنہیں صدر بشار الاسد کی حکومت کی جانب سے تشدد کا نشانہ بنا کر موت کے گھاٹ اتار دیا گیا۔ فرانس کا کہنا ہے کہ ان میں سے زیادہ تر تصاویر شام کی فوجی پولیس کے ایک فوٹوگرافر نے جمع کیں، جو فوجی ملازمت چھوڑ کر فرار ہو گیا اور جس نے فلیش ڈرائیوز پر تقریباً ستائیس ہزار تصاویر اسمگل کر کے ملک سے باہر پہنچائیں۔ اس فوٹوگرافر کو ’سیزر‘ کا کوڈ نام دیا گیا ہے۔

اقوام متحدہ کی کمشنر برائے انسانی حقوق ناوی پلے
اقوام متحدہ کی کمشنر برائے انسانی حقوق ناوی پلےتصویر: Reuters

شام کی وزارتِ انصاف نے ان تصاویر اور ان کے ساتھ جاری کی جانے والی ’سیزر رپورٹ‘ کو یہ کہتے ہوئے مسترد کر دیا ہے کہ ان میں ’معروضیت اور پیشہ ورانہ مہارت کا فقدان‘ ہے اور یہ کہ اس معاملے کو ’جان بوجھ کر سیاسی رنگ دینے کی کوشش‘ کی گئی ہے۔ مزید یہ کہ اس میں ’نامعلوم افراد کی تصاویر اکٹھی کر دی گئی ہیں، جن میں سے کئی ایک کے بارے میں پتہ چلا ہے کہ وہ غیر ملکی تھے‘۔ وزارت کے مطابق کچھ تصاویر لڑائی میں مارے جانے والے عسکریت پسندوں کی ہیں جبکہ دیگر اُن کی ہیں، جنہیں عسکریت پسند گروپوں نے ہلاک کیا۔

سلامتی کونسل میں بند کمرے میں دکھایا جانے والا یہ سلائیڈ شو شام میں روا رکھے جانے والے جنگی جرائم کا ریکارڈ رکھنے کے عمل کا ایک حصہ ہے۔ اس عمل میں آگے چل کر یہ امید کی جا رہی ہے کہ جنگی جرائم کے مرتکب افراد کو دی ہیگ کی بین الاقوامی تعزیری عدالت ICC کے کٹہرے میں لایا جا سکے گا تاہم نیوز ایجنسی ایسوسی ایٹڈ پریس کے مطابق مستقبل قریب میں ایسا ہوتا دکھائی نہیں دیتا۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ شام نے دی ہیگ کی اس عدالت کے اختیارات کو ابھی تک تسلیم ہی نہیں کیا ہے اور جب تک بشار الاسد صدر کے عہدے پر فائز ہیں، جنگی جرائم کا کیس صرف اِس صورت میں شروع کیا جا سکتا ہے، جب سلامتی کونسل یہ معاملہ دی ہیگ کی عدالت کو بھیجے۔

ہالینڈ کے شہر دی ہیگ میں بین الاقوامی تعزیری عدالت آئی سی سی کی عمارت
ہالینڈ کے شہر دی ہیگ میں بین الاقوامی تعزیری عدالت آئی سی سی کی عمارتتصویر: Getty Images

اقوام متحدہ کی کمشنر برائے انسانی حقوق ناوی پلے گزشتہ تین برسوں سے کوشش کر رہی ہیں کہ سلامتی کونسل یہ معاملہ آئی سی سی کو بھیجے تاہم ابھی گزشتہ ہفتے بھی کونسل کے صدر یُو جوائے اوگ وُو نے کہا کہ اس معاملے میں کونسل میں اتفاقِ رائے نہیں ہے۔ روس اور چین تین مرتبہ اپنا ویٹو کا حق استعمال کرتے ہوئے ایسی قراردادوں کو ناکام بنا چکے ہیں، جن میں شام کو پابندیوں کی دھمکیاں دی گئی تھیں۔

گزشتہ ہفتے ناوی پلے نے کہا تھا کہ شامی حکومت اور باغی دونوں ہی انسانیت سوز جرائم کے مرتکب ہوئے ہیں اور دونوں ہی کو کٹہرے میں لایا جانا چاہیے۔ ساتھ ہی انہوں نے یہ بھی کہا: ’’ان دونوں فریقوں کا ایک دوسرے سے موازنہ نہیں کیا جا سکتا کیونکہ شامی حکومت کی لوگوں کو جبر و تشدد کا نشانہ بنانے اور ہلاک کرنے کی کارروائیاں اپوزیشن قوتوں کے مقابلے میں کہیں زیادہ ہیں۔‘‘

سیزر رپورٹ اور اِس کے ساتھ دَس تصاویر اس سال جنوری میں جاری کی گئی تھیں۔ اس رپورٹ کی تیاری کے لیے مالی وسائل شامی اپوزیشن کے ایک بڑے حامی خلیجی عرب ملک قطر نے فراہم کیے تھے۔ اس رپورٹ کے مرتبین میں شامل ڈیوڈ ایم کرین اور ڈاکٹر سٹوارٹ جے ہیملٹن سلامتی کونسل کو اپنی تحقیقات کے نتائج سے بھی آگاہ کریں گے۔

سوائے ایک خاتون کے، جس کی لاش کی تصویر اُس کے لباس کے ساتھ بنائی گئی ہے، باقی تمام تصاویر بیس تا چالیس سال کے مردوں کی ہیں جبکہ اِن میں کسی بچے کی تصویر شامل نہیں ہے۔ چونکہ ایک ہی لاش کی تصویر تین چار مرتبہ اتاری گئی ہے، اس لیے اندازہ ہے کہ مجموعی طور پر تقریباً گیارہ ہزار افراد کی لاشوں کی تصاویر اتاری گئیں۔

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں

اس موضوع سے متعلق مزید