1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

’شامی حکومت نے قیدیوں کو تشدد کا نشانہ بنایا‘

عاطف بلوچ22 جنوری 2014

بین الاقوامی پراسیکیوٹرز کے بقول گیارہ ہزار قیدیوں کے ساتھ تشدد اور انہیں ہلاک کرنے پر شامی حکام کو جنگی جرائم کے الزامات کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔ ادھر امریکا اور اقوام متحدہ نے اس انکشاف کو ’خوفناک‘ قرار دیا ہے۔

https://p.dw.com/p/1Av1f
تصویر: Reuters

تین بین الاقوامی پراسیکیوٹرز کی رپورٹ میں اُن تصاویر کو شواہد کے طور پر پیش کیا گیا ہے جو شامی ملٹری پولیس کے ایک فوٹو گرافر کی طرف سے فراہم کی گئی ہیں۔ جنگی جرائم کے تین سابق ججوں کے بقول ان تصاویر کو دیکھنے سے دوسری عالمی جنگ کے دوران نازی جرمن ’موت کے کیمپوں‘ کی یاد تازہ ہو گئی ہے۔

ان سابق ججوں نے یہ رپورٹ قطر حکام کے ایماء پر تیار کی ہے۔ تاہم شامی حکومت نے اس رپورٹ کو مسترد کرتے ہوئے کہا ہے چوں کہ قطر باغیوں کو معاونت فراہم کررہا ہے، اس لیے اس رپورٹ کو مستند تسلیم نہیں کیا جا سکتا ہے۔ واضح رہے کہ یہ رپورٹ ایک ایسے وقت میں منظر عام پر آئی ہے جب جنیوا ٹو کانفرنس کا انعقاد کیا جا رہا ہے۔

Symbolbild 2013 blutigstes Bürgerkriegsjahr in Syrien
شام میں حکومتی افواج اور باغیوں کے مابین لڑائی کا سلسلہ بسدتور جاری ہےتصویر: picture-alliance/AP

رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ ایسے ’واضح شواہد‘ ملے ہیں کہ شامی صدر بشار الاسد کی جیلوں میں قیدیوں کو بھوکا رکھا گیا، ان کے گلے گھونٹے گئے اور انہیں تشدد کا نشانہ بنایا گیا۔ بتایا گیا ہے، ’’ایسے واضح ثبوت ملے ہیں، جن پر یقین کیا جا سکتا ہے۔ شامی حکومت کے ایجنٹس نے قیدیوں کو ایک منظم طریقے سے تشدد کا نشانہ بنایا اور انہیں ہلاک کیا۔‘‘ اس رپورٹ میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ ان شواہد کی بنیاد پر شام کی موجودہ حکومت کے خلاف جنگی جرائم کے تحت مقدمہ چلایا جا سکتا ہے۔

امریکی اسٹیٹ ڈیپارٹمنٹ کی نائب ترجمان میری ہیرف نے اس رپورٹ میں پیش کی گئی تصاویر کو ’انتہائی پریشان کن‘ قرار دیتے ہوئے کہا ہے، ’’یہ (تصاویر) دیکھنے میں خوفناک ہیں۔‘‘ انہوں نے مزید کہا، ’’ہم نے پہلے بھی کہا تھا کہ دمشق حکومت جنگی اور انسانیت کے خلاف جرائم کی مرتکب ہوئی ہے۔‘‘

اقوام متحدہ کے انسانی حقوق کی کمشنر ناوی پلائی کے ایک ترجمان نے اس رپورٹ کے تناظر میں مزید تحقیقات پر زور دیا ہے۔ یہ رپورٹ ڈیسمنڈ ڈی سلوا، جیفری نائس اور ڈیوڈ کرین نے تیار کی ہے۔ اس تحقیقی عمل کے دوران شامی ملٹری پولیس کے جس اہلکار نے یہ تصاویر فراہم کی ہیں، سکیورٹی وجوہات کی بنا پر اس کا نام صرف ’سیزر‘ بتایا گیا ہے۔ اس فوٹو گرافر نے مارچ 2011ء میں شام میں شروع ہونے والی حکومت مخالف تحریک سے لے کر اب تک کی 55 ہزار تصاویر فراہم کی ہیں۔

سیزر کا دعویٰ ہے کہ جن گیارہ ہزار قیدیوں پر تشدد کیا گیا، وہ ملٹری ہسپتال لے جانے سے قبل ہی ہلاک ہو چکے تھے۔ ان تصاویر کے مطابق ہلاک کیے جانے والے زیادہ تر افراد کی عمریں بیس تا چالیس برس تھیں۔ سیزر کے مطابق ان قیدیوں کی تصاویر لینے کا مقصد یہ تھا کہ ان کی موت کا سرٹیفکیٹ جاری کیا جا سکے اور یہ غلط بیانی کی جا سکے کہ وہ دوران علاج ہسپتال میں ہلاک ہوئے تھے۔

یہ منحرف فوٹو گرافر اپنے کنبے کی سکیورٹی کی خاطر شام سے فرار ہو کر قطر پہنچ گیا تھا۔ اس کے بقول بعد ازاں وہ یہ سب کچھ برداشت نہیں کر سکا اور اس نے ان تصاویر کو عام کرنے کا فیصلہ کیا۔