سائبر حملوں پر مسلح تنازعات کے قوانین کا اطلاق ہونا چاہیے: نیٹو
3 جولائی 2014ستمبر میں برطانیہ کی چار آئینی ریاستوں میں سے ایک ویلز میں مجوزہ نیٹو سمٹ سے پہلے مغربی دفاعی اتحاد کی کوشش ہے کہ مسلح تنازعات سے متعلق قوانین کو سائبر جنگ پر بھی لاگو کیا جا سکے۔ نیٹو یہ نظریہ ویلز کے سربراہی اجلاس میں پیش کرنے کا منصوبہ بنا رہا ہے۔
برسوں ایک واضح قانونی فریم ورک کے بغیر کام کرنے کے بعد، نیٹو کے 28 رکنی ممالک سائبر جنگ کے لیے مسلح تصادم کے قانون کے اطلاق کی درخواست پیش کرنے کے نزدیک پہنچ رہے ہیں۔ اس مہم کے دور رس نتائج ڈیجیٹل دور میں فوجی آپریشنز پر پڑیں گے۔
نیٹو ہیڈ کوارٹرز میں سائبر ڈیفنس سیکشن کے ایک پالیسی آفیسر کرسٹیان لفلینڈر اس بارے میں کہتے ہیں کہ مسلح تنازعات سے متعلق بین الاقوامی قوانین کا اطلاق سائیبر اسپیس پر بھی ہونا چاہیے" ۔
ستمبر کے ماہ میں ویلز میں ہونے والی نیٹو سربراہی کانفرنس کے حوالے سے لفلینڈ کا کہنا تھا، ’نیٹو خود قوانین نہیں بنا سکتا تاہم اتحادی بین الاقوامی قوانین کے بارے میں اپنی حمایت کا اظہار کر سکتے ہیں، خاص طور سے مسلح تنازعات کے ضمن میں" ۔
مائیکل شمٹ امریکا کے نیول وار کالج کے انٹرنیشنل لاء اسٹڈی کےسٹوکٹن سینٹر کے ڈائریکٹر ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ مسلح تنازعات کے قوانین کا سائبر جنگ پر اطلاق نیٹو کے رکن ممالک کی فوجوں کے لیے مدد گار ثابت ہوگا کیونکہ اس کے ذریعے انہیں پتا چلے گا کہ سائبر آپریشنز کس طرح کیے جانا چاہییں۔
شہریوں کے لیے حقیقی دنیا کے خطرات
مسلح تنازعات کے قوانین کے تحت ریاستیں فوجی کارروائیاں محض جنگجوؤں اور ملٹری اہداف کے خلاف کر سکتی ہیں۔ شہریوں، اُن کی املاک اور شہری تنصیبات، جیسے کے گھروں، ہسپتالوں اور اسکولوں پر حملہ ممنوع ہے۔ تاہم اب فوجی کارروائیاں سائبر اسپیس تک پہنچ گئی ہیں اور دنیا کی بہت سی حکومتوں نے اس بارے میں کوئی واضح پالیسی نہیں اپنائی ہے کہ آیا انہیں یہی پالیسی سائبر جنگ میں بھی اپنانی چاہیے یا نہیں۔ اگرچہ سائبر حملہ اپنے ہدف کو اُس طرح جسمانی طور پر تباہ نہیں کرتا ہے جیسا کہ بم، تب بھی سائبر حملے کے شہریوں کی زندگی اور ان کی املاک پر خوفناک اثرات مرتب ہو سکتے ہیں۔
ریڈ کراس کی انٹرنیشنل کمیٹی کے ایک قانونی مشیر لوران گیزل اس بارے میں کہتے ہیں،’ماہرین کے مطابق سائبر آپریشن کی مدد سے ڈیمز یا بندوں کو کھول دینا ممکن ہے۔ جس کے نتیجے میں سیلاب آ جاتا ہے۔ یا جوہری اور کیمیائی پلانٹس کو نقصان پہنچانے کے عمل سے فضا میں پھیلنے والی تابکاری بھی ہزاروں انسانوں کی جانوں پر گہرے منفی اثرات مرتب کر سکتی ہے۔‘