1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

بچوں کی ذہنی نشو و نما پر موبائل فون کے اثرات پر تحقیق

ندیم گِل20 مئی 2014

برطانوی محققین ایک مطالعہ شروع کرنے والے ہیں جس کا مقصد یہ پتہ چلانا ہے کہ آیا موبائل فونز اور دیگر وائرلیس آلات بچوں کی ذہنی نشوونما متاثر کرتے ہیں یا نہیں۔ دنیا بھر میں یہ اپنی نوعیت کی سب سے بڑی تحقیق ہو گی۔

https://p.dw.com/p/1C3A8
تصویر: picture-alliance/dpa

اسے ’ادراک، بلوغت اور موبائل فونز‘ کا مطالعہ یا ’ایس سی اے ایم پی‘ کا نام دیا گیا ہے۔ یہ تحقیق ادراک کے عوامل یعنی یادداشت اور توجہ پر فوکس کرے گی۔ ان صلاحیتوں کی نشو و نما بلوغت تک جاری رہتی ہے۔ یہ وہ عمر ہوتی ہے، جب نوجوانوں کے پاس ذاتی فون آ جاتا ہے اور وہ اس کا استعمال شروع کر دیتے ہیں۔

خبر رساں ادارے روئٹرز کے مطابق صحت پر موبائل فونز کی ریڈیائی شعاعوں کے منفی اثرات کا کوئی مدلّل ثبوت نہیں ہے۔ چونکہ آج تک کیے جانے والے سائنسی مطالعات کا موضوع ’بالغ افراد اور دماغی سرطانوں کے ممکنہ خطرات‘ رہے ہیں، اسی وجہ سے سائنسدان بے یقینی کا شکار ہیں کہ آیا بچوں کے دماغ کی نشو و نما بالغوں کے دماغ سے زیادہ غیرمحفوظ ہو سکتی ہے یا نہیں۔ اس کی ایک وجہ یہ ہے کہ بچوں کا اعصابی نظام ابھی نمو پا رہا ہوتا ہے۔

اس مطالعے کے محققین میں سے ایک امپیریئل کالج لندن کے سینٹر برائے ماحول و صحت کے سربراہ پال ایلیٹ ہیں۔ وہ کہتے ہیں:’’آج تک جو سائنسی شواہد دستیاب ہیں، وہ اطمینان بخش ہیں اور ان سے موبائل فون کے استعمال سے ریڈیو فریکوئنسی ویوز اور بالغوں میں دماغی سرطان کے درمیان تعلق دکھائی نہیں دیتا، اس تجزیے کی بنیاد دس سال سے کم عرصے تک موبائل فون استعمال کرنے والے بالغوں پر ہے۔‘‘

Mi3 smartphones in Xiaomi store in China
ڈھائی ہزار بچے اس تحقیق کا حصہ بنیں گےتصویر: picture-alliance/dpa

پال ایلیٹ کا کہنا ہے:’’لیکن طویل عرصے تک بھاری استعمال اور بچوں کے استعمال کے حوالے سے دستیاب شواہد محدود اور غیر واضح ہیں۔‘‘

ایلیٹ اور اس تحقیقاتی مطالعے کی پرنسپل تفتیش کار میریئل ٹولیڈنو اس مقصد کے لیے اسکول کے گیارہ بارہ برس کی عمر کے تقریباﹰ ڈھائی ہزار بچوں پر تحقیق کرنا چاہتے ہیں۔ وہ انہیں دو برس تک پرکھیں گے اور اس دوران اس حوالے سے اعداد و شمار جمع کیے جائیں گے کہ بچے کتنی دیر تک اور کس مقصد کے لیے موبائل یا اسمارٹ فون اور دیگر وائرلیس آلات استعمال کرتے ہیں۔

اس تحقیق کا حصہ بننے والے طلبا اور ان کے والدین بچوں کی جانب سے موبائل ڈیوائسز اور وائرلیس ٹیکنالوجیز کے استعمال سے متعلق سوالات کے جواب دیں گے۔ طرزِ زندگی سے متعلق بھی سوال پوچھے جائیں گے۔ کمپیوٹرائزڈ ٹیسٹ کے ذریعے بچوں کی یادداشت اور توجہ مرکوز کرنے کی صلاحیت بھی جانچی جائے گی۔

دورِ حاضر میں موبائل فون کا استعمال انتہائی عام ہے۔ ورلڈ ہیلتھ آرگنائزیشن کے اندازے کے مطابق دنیا بھر میں موبائل فونز کے صارفین کی تعداد چار اعشاریہ چھ بلین ہے۔ برطانیہ میں گیارہ برس سے بارہ برس کی عمر کے ستّر فیصد بچوں کے پاس موبائل فونز ہیں جبکہ وہاں چودہ برس کی عمر کے نوّے فیصد بچوں کے پاس ذاتی موبائل فونز ہیں۔