’2013ء میں 71 صحافی ہلاک ہوئے‘
18 دسمبر 2013RSF نامی یہ تنظیم پوری دنیا میں ذرائع ابلاغ سے وابستہ افراد کے حقوق کے لیے سرگرم رہتی ہے۔ فرانسیسی دارالحکومت پیرس میں قائم اس تنظیم نے اپنی سالانہ رپورٹ میں بتایا ہے کہ گزشتہ سال کے مقابلے میں ہلاکتوں کی تعداد اگرچہ ذرا سی کم ہے تاہم اغوا کے واقعات میں اضافہ دیکھنے میں آیا ہے۔ رپورٹ کے مطابق شام، صومالیہ اور پاکستان دنیا کے اُن پانچ خطرناک ترین ملکوں میں شامل ہیں، جہاں میڈیا سے وابستہ افراد کی جان ہمہ وقت خطرے میں رہتی ہے۔ دیگر دو ممالک بھارت اور فلپائن ہیں، جنہوں نے گزشتہ برس ان پوزیشنوں پر آنے والے ملکوں میکسیکو اور برازیل کی جگہ لی ہے، یہ اور بات ہے کہ برازیل میں گزشتہ برس کی طرح اس برس بھی پانچ صحافیوں کو ہلاک کر دیا گیا۔
فرانسیسی خبر رساں ادارے اے ایف پی نے اس رپورٹ کا حوالہ دیتے ہوئے لکھا ہے کہ 2012ء کا سال صحافیوں کے لیے ’خاص طور پر ہلاکت خیز‘ رہا، جب اٹھاسی صحافی اپنے فرائض کی بجا آوری کے دوران ہلاک ہوئے، اس کے مقابلے میں رواں سال ایسی ہلاکتوں کی شرح میں بیس فیصد کمی دیکھنے میں آئی ہے۔
دوسری جانب جہاں 2012ء میں اڑتیس صحافیوں کو اغوا کیا گیا، وہاں اس سال اب تک 87 صحافی اغوا کے واقعات کا نشانہ بنے ہیں، جن کی نصف سے زیادہ تعداد شام میں اغوا ہوئی ہے۔ رپورٹرز وِد آؤٹ بارڈرز کے مطابق شام میں اغوا کی کارروائیاں منظم انداز میں کی جا رہی ہیں اور زیادہ سے زیادہ رپورٹرز کو موقع پر جا کر رپورٹنگ کرنے سے روکا جا رہا ہے۔ رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ آج کل شام میں کم از کم اٹھارہ غیر ملکی صحافیوں کے ساتھ ساتھ شام کے بائیس مقامی رپورٹرز بھی اغوا ہو چکے ہیں یا لاپتہ ہیں۔ اِن اغوا شُدگان میں امریکی فری لانس صحافی جیمز فولی بھی شامل ہیں، جنہیں مسلح افراد نے گزشتہ سال نومبر میں شمالی صوبے اِدلیب سے اغوا کر لیا تھا۔
اس رپورٹ کے مطابق اس سال تقریباً چالیس فیصد ہلاکتیں شام، صومالیہ اور مالی جیسے بحران زدہ خطّوں میں یا پھر وسطی بھارت کی بائیں بازو کی انتہا پسندی کی زَد میں آئی ہوئی اور معدنی وسائل سے مالا مال ریاست چھتیس گڑھ میں ہوئیں۔
ہلاک ہونے والے دیگر صحافی وہ تھے، جو جرائم پیشہ مثلاً منشیات کے کاروبار سے جُڑے افراد اور مسلمان انتہا پسندوں کی طرف سے کیے جانے والے بم دھماکوں کی زَد میں آ کر یا پولیس اور دیگر سکیورٹی فورسز کے ہاتھوں یا پھر بدعنوان حکومتی اہلکاروں کے ایماء پر ہلاک ہوئے۔
آر ایس ایف کی اس رپورٹ میں یہ بھی بتایا گیا ہے کہ شامی تنازعے کے دوران پیش آنے والے پُر تشدد واقعات نے صحافت سے وابستہ کم از کم اکتیس شخصیات کو رواں سال ملک چھوڑنے پر مجبور کر دیا۔ ان میں سے بہت سے اب ترکی، اردن، لبنان یا پھر مصر میں ابتر اور غیر محفوظ حالات میں زندگی گزار رہے ہیں۔ رپورٹ کے مطابق وطن چھوڑنے پر مجبور ہونے والے ان صحافیوں کو مصر میں اجانب دشمنی اور اخوان المسلمون کے حامی ہونے کے الزامات کا سامنا ہے، اردن میں اِنہیں سکیورٹی اداروں کی پوچھ گچھ اور دھمکیاں سہنا پڑ رہی ہیں جبکہ لبنان میں اِنہیں شامی صدر بشار الاسد کے حامی ملیشیا ارکان ہراساں کر رہے ہیں۔
اس رپورٹ میں یہ بھی بتایا گیا ہے کہ آج کل کم از کم 178 صحافی دنیا بھر میں اور بالخصوص چین، ارٹریا، ترکی، ایران اور شام میں قید و بند کی صعوبتیں برداشت کر رہے ہیں۔