1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

شمسی پینلز: یورپی اور چینی کمپنیوں کے تنازعے میں شدت

31 جولائی 2012

جرمنی، اٹلی، اسپین اور یورپی یونین کے دیگر رکن ملکوں کے شمسی پینلز تیار کرنے والے کوئی 20 اداروں نے ایک درخواست دائر کرتے ہوئے یورپی کمیشن سے حریف چینی کمپنیوں کے غیر منصفانہ طریقوں کے آگے بند باندھنے کی استدعا کی ہے۔

https://p.dw.com/p/15gzn
تصویر: Thomas Trutschel/photothek.net

ان یورپی اداروں کا مطالبہ ہے کہ شمسی پینلز کے کاروبار میں مقابلہ بازی ضرور ہونی چاہیے لیکن منصفانہ بنیادوں پر۔ ان اداروں کا الزام ہے کہ چینی اداروں کو اربوں کے حساب سے قرضے اور سرکاری اعانتیں مل رہی ہیں، جس کی وجہ سے وہ اپنے شمسی پینلز کو اُن کی تیاری پر آنے والی لاگت سے بھی کم قیمت پر یورپی منڈی میں فروخت کے لیے پیش کر پا رہے ہیں۔ ان یورپی اداروں کا مطالبہ ہے کہ یورپی یونین کو مسابقت کے منصفانہ حالات پیدا کرنے چاہییں اور ضرورت پڑنے پر چینی اداروں کی مصنوعات پر حفاظتی محصولات بھی عائد کرنے چاہییں۔

ای یُو پرو سَن (EU ProSun)نامی تحریک کی نمائندگی کرتے ہوئے ممتاز ادارے سولر ورلڈ سے وابستہ میلان نیشکے(Milan Nitzschke) بتاتے ہیں:’’معاملہ شمسی سیلز سے بجلی بنانے کے شعبے میں چینی اداروں کے لاگت سے بھی کم قیمت پر مصنوعات کی فروخت کا ہے۔ چینی ادارے یہ شمسی پینلز اِن کی تیاری پر آنے والی لاگت سے تقریباً آدھی قیمت پر فروخت کر رہے ہیں۔ ایسے میں کوئی بھی ادارہ اُن کے ساتھ قدم سے قدم ملا کر چل ہی نہیں سکتا۔‘‘

چین میں شمسی پینلز کی تیاری کا ایک منظر
چین میں شمسی پینلز کی تیاری کا ایک منظرتصویر: picture-alliance/dpa

یورپی کمیشن نے فوری طور پر اس درخواست کے دائر کیے جانے کی تصدیق نہیں کی تھی تاہم کمیشن کے ایک ترجمان جو ہینن (Joe Hennon) نے کہا:’’مَیں اتنا ہی کہہ سکتا ہوں کہ اگر ڈمپنگ یعنی لاگت سے کم قیمت پر فروخت یا سرکاری اعانتوں کے حوالے سے کوئی درخواست دائر کی جاتی ہے تو ہم پنتالیس روز کے اندر اندر یہ فیصلہ سنا دیں گے کہ آیا ہم اس درخواست پر غور کریں گے یا نہیں۔‘‘

شمسی توانائی کے شعبے سے منسلک کاروباری اور صنعتی اداروں کو امید ہے کہ اُن کی درخواست سماعت کے لیے منظور کر لی جائے گی۔ ایسی صورت میں کمیشن تحقیقات کرے گا اور 9 ماہ کے اندر اندر ایسے احکامات جاری کر سکتا ہے، جو چین سے آنے والے انتہائی سستے شمسی پینلز سے جزوی طور پر سخت پریشان یورپی صنعت کے لیے امید کی نئی کرن کے مترادف ہوں گے۔

شمسی پینلز تیار کرنے والے ایک جرمن ادارے کے کارخانے میں پرانے شمسی پینلز سے حاصل کیے گئے سلیکون کو دوبارہ کام میں لانے کے لیے تیار کیا جا رہا ہے
شمسی پینلز تیار کرنے والے ایک جرمن ادارے کے کارخانے میں پرانے شمسی پینلز سے حاصل کیے گئے سلیکون کو دوبارہ کام میں لانے کے لیے تیار کیا جا رہا ہےتصویر: picture-alliance/ dpa

واضح رہے کہ گزشتہ مہینوں کے دوران صرف جرمنی میں شمسی سیلز تیار کرنے والے بہت سے ادارے دیوالیہ ہو چکے ہیں، جن میں کیو سیلز(Q-Cells)، سووَیلو (Sovello)، سولون (Solon) اور فرسٹ سولر (First Solar)بھی شامل ہیں۔ ایک اندازے کے مطابق جرمنی میں فروخت ہونے والے 80 فیصد شمسی سیلز چین سے درآمد شُدہ ہوتے ہیں۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ چینی شمسی پینلز کی تیاری میں استعمال ہونے والا 60 فیصد میٹیریل، خواہ وہ پولی سلیکون کی شکل میں ہو، خصوصی شیشے کی شکل میں ہو یا مشینوں کی شکل میں، یہاں جرمنی سے جاتا ہے۔

دوسری جانب چینی ادارے اپنی بیجنگ حکومت سے یہ مطالبہ کر رہے ہیں کہ وہ اُنہیں اِن ممکنہ محصولات سے بچائے۔ یہ مطالبہ چینی حکومت کے ایوانوں تک پہنچ گیا ہے اور چینی وزارتِ تجارت نے یورپی صنعت کے تمام تر اعتراضات مسترد کر دیے ہیں۔ چینی وزارت کا کہنا ہے کہ چینی سولر مصنوعات کی قیمتوں میں کمی دیگر عوامل کے ساتھ ساتھ شمسی سیلز کی تیاری میں استعمال ہونے والے مادے سلیکون کی قیمتیں گر جانے کی وجہ سے بھی ہے۔ چینی وزارتِ خارجہ کا موقف ہے کہ جہاں 2008ء میں سلیکون کی قیمت تین سو ڈالر فی کلوگرام تھی، وہاں اب یہ صرف تیس ڈالر فی کلوگرام رہ گئی ہے۔

امریکی حکومت نے رواں سال کے اوائل سے ہی چین سے شمسی توانائی کی سستی ٹیکنالوجی پر تعزیری محصولات عائد کرنا شروع کر دیے ہیں۔

K. Kails,R. Breuer/aa/km

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں

اس موضوع سے متعلق مزید