1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

شمسی توانائی کا کل اور آج

15 جون 2012

بنیادی طور پر سولر انرجی یا شمسی توانائی کے استعمال کا نظریہ قریب ڈھائی سو سال پرانا ہے۔ دن بھر سورج کی توانائی کو ذخیرہ کرکے شب کے اندھیرے میں اس کا استعمال بیسویں صدی میں شروع ہوا۔

https://p.dw.com/p/15G0G
تصویر: picture-alliance/Chen liang wh - Imaginechina

تجرباتی مرحلے کے بعد شمسی توانائی کا استعمال 60ء کے عشرے میں ممکن ہوا۔ اس وقت ایک سولر سیل کی قیمت انتہائی زیادہ یعنی قریب 300 ڈالر فی واٹ تھی۔ اُس وقت شمسی توانائی کو بنیادی طور پر خلائی پروگراموں کے لیے کام میں لایا جاتا تھا۔ 1958ء میں Vanguard I وہ پہلا سیٹیلائٹ تھا، جس میں توانائی کے لیے شمسی شعاؤں کا استعمال کیا گیا۔

جدید دور میں شمسی توانائی کے استعمال کو اُس وقت فروغ حاصل ہوا جب 70ء کی دہائی میں تیل پیدا کرنے والے ممالک کی تنظیم اوپیک نے کئی مغربی ممالک کے لیے تیل کی فراہمی بند کردی تھی۔ اُسی وقت توانائی کے متبادل ذرائع کے اہمیت اجاگر ہوئی اور تیل، گیس اور کوئلے سے ہٹ کر دیگر ذرائع کی کھوج تیز تر کردی گئی۔ صورتحال پر قابو پانے کے لیے شمسی توانائی کو ذخیرہ کرنے کی صلاحیت رکھنے والے سیلز کی قیمت سینکڑوں ڈالر سے کم ہوکر 20 ڈالر فی واٹ تک گرگئی۔

80ء کی دہائی تک شمسی توانائی سے متعلق تکنیک، پراڈکٹس اور استعمال میں امریکا سر فہرست رہا، جہاں لاس اینجلس کی کمپنی Luz دنیا بھر میں شمسی توانائی سے متعلق اشیاء کا 95 فیصد تیار کر رہی تھی۔جیسے ہی سستے داموں تیل کی دستیابی ایک مرتبہ پھر ممکن ہوئی، شمسی توانائی کے استعمال میں نمایاں کمی ہونے لگی۔ Luz کمپنی جلد ہی بند ہو گئی۔ اس کی انتظامیہ نے امریکی حکومت پر شمسی توانائی کے ماحول دوست اور دور رس مثبت اثرات کو نظر انداز کرنے کا الزام عائد کیا۔

Fabrik für Solarmodule - Odersun
سولر پینلز کی تیاری کا ایک منظرتصویر: picture-alliance/dpa

اب ایک مرتبہ پھر دنیا بھر میں شمسی توانائی کا استعمال فروغ پا رہا ہے۔ ماحول دوست تنظیموں کے ساتھ ساتھ عوام میں بھی اس کی مقبولیت بڑھ رہی ہے اور یورپ کے خوشحال ممالک سے لے کر افریقہ کے کئی غریب ممالک میں بھی سولر پینل نصب دکھائی دیتے ہیں۔ شمسی توانائی کے استعمال کے حوالے سے اس وقت جرمنی دنیا کا سرفہرست ملک ہے، جہاں شمسی توانائی سے حاصل ہونے والی مجموعی بجلی کا پانچ فیصد پیدا ہوتا ہے۔ جرمنی میں 28 گیگا واٹ کی توانائی کے حامل ایک ملین سے زائد یونٹس ہیں جن میں سے بیشتر شہریوں کے پاس ہیں۔

دنیا بھر میں شمسی پینلز تیار کرنے والی کمپنیاں اب زیادہ تعداد میں اور کم قیمت پر پینلز تیار کر رہی ہیں۔ نئے پینلز سے حاصل ہونے والی بجلی بارہ تا بیس سینٹ فی کلو واٹ آور پڑتی ہے۔ خط اُستوا پر واقع ملکوں میں بجلی کی پیداوار زیادہ بھی ہو گی اور بجلی سستی بھی پڑے گی۔ جرمنی میں شمسی توانائی کے شعبے سے وابستہ افراد کی تعداد ڈیڑھ لاکھ ہے، جن میں سے بیس ہزار شمسی سیلز بنانے والی فیکٹریوں میں کام کرتے ہیں۔ چند ایک فیکٹریاں چین کی جانب سے کم قیمت والے پینلز کے دباؤ کو برداشت نہیں کر سکیں اور بند ہو چکی ہیں۔ دنیا پھر میں شمسی توانائی کے پینلز کی گنجائش کا تقریباً نصف چین میں تیار کیا جا رہا ہے۔

رپورٹ: شادی خان سیف

ادارت: ندیم گل