1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

امریکا کا افغانستان میں امریکی فوجیوں کی نئی متنازعہ تصاویر پر افسوس

19 اپریل 2012

امریکا نے حال ہی میں شائع ہونے والی ان تصویروں کی مذمت کی ہے جو افغانستان میں امریکی فوجیوں نے عسکریت پسندوں کی مسخ شدہ لاشوں کے پاس کھڑے ہو کر کھنچوائی ہیں۔ وزیر دفاع لیون پنیٹا نے ان تصویروں پر افسوس کا اظہار کیا ہے۔

https://p.dw.com/p/14go0
تصویر: Reuters

یہ تصاویر بدھ کو امریکی اخبار لاس اینجلیس ٹائمز میں شائع ہوئی ہیں مگر یہ سن 2010 کی ہیں۔ حالیہ تصاویر ایسے وقت سامنے آئی ہیں جب افغانستان میں پے در پے ہونے والے مختلف واقعات میں امریکی فوج کی ساکھ کو پہلے ہی نقصان پہنچا ہے اور 2014 ء میں افغانستان سے غیر ملکی افواج کے انخلاء کا معاملہ بھی پیچیدہ شکل اختیار کرتا جا رہا ہے۔

امریکی وزیر دفاع لیون پنیٹا نے کہا ہے کہ اس معاملے میں ملوث افراد کو سزا دی جائے گی۔ تاہم انہوں نے اس بات پر افسوس ظاہر کیا ہے کہ اخبار نے پینٹاگون کی خواہشات کے برعکس یہ تصاویر شائع کرنے کا فیصلہ کیا تھا جس سے منفی ردعمل ابھر سکتا ہے۔

پنیٹا نے برسلز میں ایک پریس کانفرنس کے دوران کہا: ’مجھے علم ہے کہ جنگ ایک بھیانک شے ہے اور مجھے یہ بھی علم ہے کہ بعض اوقات نوجوان انجانے میں احمقانہ فیصلے کر لیتے ہیں۔ میں اس رویے کا کوئی عذر پیش نہیں کر رہا مگر میں نہیں چاہتا کہ ان تصاویر سے ہمارے لوگوں اور ان کے افغان عوام سے تعلقات کو مزید نقصان پہنچے۔‘

لاس اینجلیس ٹائمز کو ایک فوجی اہلکار سے اٹھارہ ایسی تصاویر موصول ہوئی تھیں اور اُس نے ان میں سے صرف دو کو شائع کیا ہے۔ اس فوجی اہلکار کے خیال میں ان تصویروں سے فوج میں قیادت اور نظم و ضبط کے زوال کی عکاسی ہوتی ہے۔

Anders Fogh Rasmussen NATO Medien Konferenz
نیٹو کے سربراہ آندرس فوگ راسموسن نے اسے ایک الگ تھلگ واقعہ قرار دیا ہے جس کا نیٹو مشن کی اقدار سے کوئی واسطہ نہیںتصویر: AP

ان میں سے ایک تصویر میں ایک مردہ عسکریت پسند کا ہاتھ ایک فوجی کے شانے پر رکھا ہوا دکھائی دے رہا ہے۔ دوسری تصویر میں ایک طالبان جنگجو کی دھڑ کے بغیر صرف ٹانگیں دکھائی دے رہی ہیں اور فوجی مسکراتے ہوئے ہاتھ سے فتح کا نشان بنا رہے ہیں۔

پہلی تصویر فروری 2010 ء کی ہے جس میں 82nd Airborne Division کی 4th Brigade Combat Team کے فوجیوں کو صوبہ زابل کے ایک افغان پولیس اسٹیشن میں ایک مبینہ خود کش بمبار کی جسمانی باقیات کا معائنہ کرنے بھیجا گیا تھا۔ لاس اینجلیس ٹائمز کی رپورٹ کے مطابق ان فوجیوں کا کام لاش کے فنگر پرنٹس لینا تھا مگر اس کی بجائے وہ اس کے ساتھ تصویریں بنواتے رہے۔

امریکی فوج کے اخبار Army Times کی خبر میں کہا گیا ہے کہ یہ فوجی ایسے یونٹ کا حصہ تھے جس میں نظم و ضبط اور قیادت کا فقدان تھا اور اسی وجہ سے اس کے اعلٰی عہدیداروں کو اپنے فرائض سے فارغ کر دیا گیا۔

Robert Bales
مارچ میں رابرٹ بیلز نامی امریکی فوجی نے مبینہ طور پر فائرنگ کر کے سترہ افغان شہریوں کو ہلاک کر دیا تھاتصویر: DVIDS

نیٹو کے سربراہ آندرس فوگ راسموسن نے کہا ہے کہ ان تصاویر سے مغربی دفاعی اتحاد کے مشن کی اقدار کی نمائندگی نہیں ہوتی۔ انہوں نے کہا: ’یہ واقعہ چند سال قبل پیش آیا اور میرے نزدیک یہ ایک الگ تھلگ واقعہ ہے۔‘

وائٹ ہاؤس کے ترجمان جے کارنی نے کہا کہ تصاویر ’افسوسناک‘ ہیں مگر صدر اوباما کی انتظامیہ اخبار کی جانب سے ان کی اشاعت پر ’سخت مایوس‘ ہے۔

اس تازہ واقعے سے مختلف واقعات کے باعث افغانستان میں پہلے سے مشکلات کے شکار امریکی افغان تعلقات کو مزید دھچکا لگے گا۔ رواں برس جنوری میں ایک وڈیو کلپ میں امریکی فوجیوں کو مردہ عسکریت پسندوں پر پیشاب کرتے دکھایا گیا تھا۔ فروری کے وسط میں بگرام کے امریکی فوجی اڈے پر قرآن سوزی کے واقعے کے بعد افغانستان میں ہنگامے پھوٹ پڑے تھے جن میں تیس کے قریب افراد ہلاک ہوئے تھے۔ اور مارچ میں ایک افغان فوجی نے مبینہ طور پر فائرنگ کر کے سترہ افغان شہریوں کو ہلاک کر دیا تھا۔

(hk/ah (AFP