یوکرائن تنازعہ، ‘بفر زون‘ کے قیام پر اتفاق رائے ہو گیا
20 ستمبر 2014خبر رساں ادارے اے پی نے بتایا ہے کہ بیلاروس کے دارالحکومت منسک میں ہونے والے مذاکرات کے بعد کییف حکومت اور روس نواز باغی مشرقی یوکرائن میں تیس کلو میٹر کے علاقے میں ایک ’بفر زون‘ قائم کرنے پر رضا مند ہو گئے۔ یوں باغی اور یوکرائنی فوجی دستے پندرہ پندرہ کلو میٹر پیچھے ہٹ جائیں گے جبکہ روس سے ملحقہ اس یوکرائنی علاقے میں فوجی پروازوں پر بھی پابندی ہو گی۔ ان مذاکرات میں سلامتی و تعاون کے یورپی ادارے کے نمائندوں نے بھی شرکت کی، جو قیام امن کے اس معاہدے کی نگرانی بھی کریں گے۔
اس معاہدے میں یہ بھی طے پایا ہے کہ فریقین جنگ زدہ علاقے سے بھاری اسلحہ جات واپس لے جائیں گے اور تناؤ میں کمی کے لیے فوجی اور دیگر غیرملکی فائٹرز بھی واپس لوٹ جائیں گے۔ واضح رہے کہ اس علاقے میں دو ہفتے قبل طے پانے والے فائر بندی کے ایک معاہدے پر عملدرآمد جاری ہے لیکن مختلف واقعات میں اس کی خلاف ورزی کی اطلاعات بھی موصول ہوتی رہتی ہیں۔
یوکرائن کی طرف سے ان مذاکرات کی نمائندگی کرنے والے سابق صدر لیوناڈ کوچاما نے بتایا ہے کہ اس امن منصوبے پر عملدرآمد ایک دن کے اندر اندر ہی شروع ہو جائے گا اور تعاون و سلامتی کے یورپی ادارے (او ایس سی ای) کے معائنہ کار اس علاقے میں فائر بندی معاہدے کی نگرانی پر مامور کیے جائیں گے۔ انہوں نے مشرقی یوکرائن میں فائر بندی کے معاہدے اور پائیدار امن کے لیے اس پیشرفت کو اہم قرار دیا ہے۔
باغیوں کی طرف سے ان مذاکرات کی نمائندگی کرنے والے لوہانسک ریجن کے رہنما ایگور پلاٹنسکی نے کہا ہے کہ اس معاہدے کے نتیجے میں مقامی آبادی کو تحفظ کا احساس ملے گا۔ یہ امر اہم ہے کہ کییف اور مغربی ممالک عائد کرتے ہیں کہ روس مشرقی یوکرائن میں بغاوت بھڑکانے میں اہم کردار ادا کر رہا ہے جبکہ ماسکو حکومت انہیں مسترد کرتی ہے۔ باغیوں کی طرف سے بتایا گیا ہے کہ ان مذاکرات میں لوہانسک اور ڈونیسک ریجن کے مستقبل پر کوئی بات نہیں کی گئی ہے۔
ماسکو حکومت کی طرف سے منسک میں ہوئے ان امن مذاکرات میں شریک ہونے والے اور یوکرائن میں تعینات روسی سفیر میخائیل زورابوف نے کہا ہے کہ اس منصوبے کو نافذ کرنے میں تعاون و سلامتی کا یورپی ادارہ اہم کردار ادا کرے گا۔ او ایس سی ای کے نمائندے ہیدی ٹاگلیاوانی نے بھی تصدیق کر دی ہے کہ اس یورپی ادارے کے معائنہ کار جلد ہی متاثرہ علاقے میں پہنچ جائیں گے، جو اس ’بفر زون‘ کی نگرانی کے فرائض سر انجام دیں گے۔
مشرقی یوکرائن کے متعدد علاقوں میں اپریل میں شروع ہونے والی بغاوت اور بعدازاں یوکرائنی فوج کی طرف سے ان علاقوں کا کنٹرول واپس حاصل کرنے کی کوشش میں اب تک کم ازکم تین ہزار افراد لقمہ اجل بن چکے ہیں۔ اقوام متحدہ کے اندازوں کے مطابق اس خونریز تنازعے کی وجہ سے مقامی لوگوں کی ایک بڑی تعداد ہجرت اختیار کرنے پر بھی مجبور ہوئی ہے۔