یورپی پابندیاں: گیند اب روس کی کورٹ میں
30 جولائی 2014یورپی یونین کے اٹھائیس رکن ملکوں کے لیے روس کے خلاف پابندیوں کے معاملے میں کسی مشترکہ موقف پر متفق ہونا آسان ہرگز نہیں تھا کیونکہ ہر کسی کے اپنے اپنے مفادات ہیں اور ہونے بھی چاہییں۔ اس کے باوجود یہ بات مثبت ہے کہ بالآخر یہ اتفاقِ رائے عمل میں آ گیا۔ اگر اب یونین یہ قدم نہ اٹھاتی تو اُس کا اعتبار جاتا رہتا۔ ماسکو حکومت کی جانب اب تک کے تمام تر اعلانات اور دھمکیوں کے بعد اب اس طرح کا واضح اقدام ناگزیر ہو چکا تھا۔
روسی صدر خطرات مُول لیتے ہوئے اپنے مہرے آگے بڑھا رہے ہیں اور انہوں نے ملائیشین طیارے کے تقریباً تین سو مسافروں کی المناک موت کے بعد بھی مشرقی یوکرائن میں اُن باغیوں کو پیچھے ہٹنے کا اشارہ نہیں دیا، جو اُنہی کی شَہ پر سرگرمِ عمل ہیں۔ ایسے میں یورپی یونین کے پاس بھی اور کوئی چارہ نہیں تھا۔ یونین کے رکن ممالک نے کریمیا پر قبضے کو تو خاموشی سے قبول کر لیا تھا۔ پھر وہ خاموش تماشائی بن کر یہ بھی دیکھتے رہے کہ کیسے مشرقی یوکرائن میں ایک مسلح بغاوت ایک طرح کی خانہ جنگی میں تبدیل ہوتی جا رہی ہے۔ اس دوران یونین ماسکو حکومت کو طرح طرح کی سفارتی پیشکشیں بھی کرتی رہی اور جواب میں اپنی تذلیل بھی سہتی رہی۔ یونین کے صبر کا پیمانہ تب جا کر لبریز ہوا جب ملائیشیا ایئر لائنز کے طیارے ایم ایچ سترہ کو مار گرایا گیا۔ تب یورپی ر ہنما یہ کہنے یر مجبور ہو گئے کہ بس، اب بہت ہو گیا۔
کوئی بھی شخص یقین سے یہ پیشین گوئی نہیں کر سکتا کہ ان اقتصادی پابندیوں سے مطلوبہ نتائج واقعی حاصل ہو سکیں گے اور روسی صدر کے موقف میں لچک پیدا کی جا سکے گی۔ ایسا ہونے میں بہت دیر لگے گی۔ روسی معیشت کی حالت خراب ہوتی جائے گی، شاید وہاں کساد بازاری کی سی صورت پیدا ہو جائے تاہم ممکنہ طور پر ولادیمیر پوٹن مغربی دنیا کی توقعات سے کہیں زیادہ عرصے تک ان پابندیوں کے اثرات کو برداشت کر سکتے ہیں۔ پوٹن کو بظاہر روسی عوام کی بھی پوری تائید و حمایت حاصل ہے۔ سوال یہ ہے کہ کیا وہاں کا طبقہء امراء تب بھی پوٹن کا ساتھ دیتا رہے گا، جب اُس کی دولت اور اثاثے ڈگمگانے لگیں گے؟ اِدھر یورپی یونین اپنے شہریوں کو بر وقت یہ بتانے سے قاصر رہی ہے کہ ان پابندیوں کی کچھ قیمت اُنہیں بھی چکانا پڑے گی۔ پوٹن کو کوئی اور راستہ نظر نہ آیا تو وہ یورپ کے لیے توانائی کی فراہمی روک بھی سکتے ہیں۔
چونکہ اس بار پابندیوں کے معاملے میں یورپ اور امریکا ایک ساتھ عملی قدم اٹھا رہے ہیں اس لیے امکان ہے کہ پوٹن پر ان کے اثرات ضرور نظر آئیں گے۔ دوسری طرف پوٹن اتنے تنہا بھی نہیں، جتنا مغربی دنیا سمجھتی ہے۔ چین کے ساتھ ساتھ دیگر ابھرتی ہوئی معیشتیں جیسے کہ برازیل، بھارت اور جنوبی افریقہ بھی اس روسی مطلق العنان حکمران کی ایک طرح سے خوشامد کرتی نظر آتی ہیں۔ روس طویل المدتی بنیادوں پر یہ کر سکتا ہے کہ یورپ کو توانائی فراہم کرنا بند کر دے اور اپنی ضرورت کی مشینیں چین سے درآمد کرنے لگے۔
اب پہلا قدم اٹھانے کے بعد یورپی یونین کو جلد از جلد دیگر ممالک سے رابطہ قائم کر کے اس امر کو یقینی بنانا چاہیے کہ ایشیا اور لاطینی امریکا کے بینک یورپی یونین کی عائد کردہ پابندیوں کو بے اثر نہ کر دیں۔ مقصد یہی ہونا چاہیے کہ روس کے سامراجی عزائم کے آگے بند باندھا جائے، یوکرائن میں پھر سے امن قائم کیا جائے اور یورپ میں امن و امان کی اُس حالت کو برقرار رکھا جائے، جو اب خطرے سے دوچار نظر آتی ہے۔ ان پابندیوں کی صورت میں یورپی یونین نے اپنا سب سے کاری ہتھیار استعمال کیا ہے۔ اب معاملے کو مزید بگاڑنا ہے یا لچکدار موقف اختیار کرتے ہوئے مسئلے کو حل کرنا ہے، دونوں میں سے کسی ایک چیز کا انتخاب اب روس کو کرنا ہے۔