1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

یوکرائن تنازعہ، روس پر سخت پابندیاں عائد کرنے کا فیصلہ

عاطف بلوچ30 جولائی 2014

یورپی یونین کے بعد امریکا نے بھی روس پر سخت پابندیاں عائد کرنے کا اعلان کر دیا ہے۔ ان نئی اضافی پابندیوں کے تحت روس کے توانائی، اسلحے اور بینکنگ کے شعبہ جات کو نشانہ بنایا گیا ہے۔

https://p.dw.com/p/1Cm6T
تصویر: picture-alliance/dpa

منگل کے دن وائٹ ہاؤس میں صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے امریکی صدر باراک اوباما نے روس پر عائد کی جانے والی ان نئی پابندیوں کے تناظر میں کہا کہ واشنگٹن اور اس کے یورپی اتحادیوں کا منصوبہ ہے کہ وہ یوکرائن کے بحران کے حل کے لیے سفارتی راستہ اختیار کرتے ہوئے دباؤ بڑھاتے رہیں۔ تاہم روس کی طرف سے مشرقی یوکرائن میں فعال علیحدگی پسندوں کی حمایت ختم نہ کرنے کا فیصلہ انتہائی سنجیدہ ہے اور یہ آسانی سے نظر انداز نہیں کیا جا سکتا۔ اوباما کے بقول اس لیے کوئی مشترکہ ایکشن لینا ضروری تھا۔

US Präsident Barack Obama Rede
امریکی صدر اوباما کا کہنا ہے کہ وہ یوکرائن بحران کے حل کے لیے سفارتی راستے اختیار کرتے رہیں گےتصویر: picture-alliance/dpa

امریکی صدر نے مزید کہا کہ اگر روس یوکرائن میں عدم استحکام پیدا کرنے کے راستے پر چلتا رہتا ہے تو اس پر دباؤ بڑھانے کا سلسلہ بھی جاری رہے گا۔ اوباما نے کہا کہ برسلز کی طرف سے روس پر پابندیاں عائد کرنے کے اعلان کے بعد اسی لیے واشنگٹن نے بھی وہی راہ اختیار کی ہے۔ امریکی صدر اوباما کے مطابق واشنگٹن اور یورپی یونین کی طرف سے اٹھائے گئے ان اقدامات سے روسی اقتصادیات پر ایسے شدید اثرات مرتب ہوں گے، جو پہلے نہیں دیکھے گئے۔

قبل ازیں منگل کے دن ہی اٹھائیس رکن ممالک کے بلاک یورپی یونین کی طرف سے روس پر عائد کی جانے والی وسیع تر اقتصادی پابندیوں میں مستقبل میں اسلحہ فروخت کرنے پر پابندی کے علاوہ مالیاتی اور ٹیکنالوجی جیسے شعبہ جات کو بھی نشانہ بنایا گیا۔

مشرقی یوکرائن میں ملائشیائی ایئر لائنز کی پرواز ایم ایچ17 کی تباہی کے بعد عالمی برادری نے سخت ردعمل ظاہر کیا تھا۔ دو ہفتے قبل رونما ہونے والے اس واقعے کے نتیجے میں 298 افراد مارے گئے تھے۔ اس پریشان کن پیشرفت کے بعد یورپی اور امریکی رہنماؤں نے روس پر دباؤ بڑھا دیا تھا۔ روس پر الزام عائد کیا جاتا ہے کہ اس نے باغیوں کو ایسے راکٹ مہیا کیے تھے، جن کی مدد سے انہوں نے اس ملائشیائی طیارے کو مار گرایا تھا۔

نئی سرد جنگ نہیں، اوباما

صدر اوباما نے کہا کہ یوکرائن کے تنازعے پر مغرب اور روس کے مابین بڑھتی ہوئی کشیدگی ’ایک نئی سرد جنگ‘ کا پیش خیمہ نہیں ہے۔ ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ مسئلہ یہ ہے کہ روس اس حقیقت کو تسلیم کرنے سے انکار کر رہا ہے کہ یوکرائن کے عوام اپنی پسند کا راستہ اختیار کر سکتے ہیں۔

اوباما نے واضح کیا کہ وہ اور یورپی ممالک مشرقی یوکرائن میں فعال روس نواز باغیوں کے خلاف لڑائی میں کییف حکومت کی معاونت میں دلچسپی نہیں رکھتے ہیں۔ اوباما کے بقول وہ اس تنازعے کے خاتمے کے لیے روس پر دباؤ بڑھاتے ہوئے اس کی اقتصادیات کو نشانہ بنانا چاہتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ وہ یوکرائن میں مزید خون خرابہ نہیں دیکھنا چاہتے۔

پابندیاں لازمی تھیں، چانسلر میرکل

Angela Merkel PK 18. Juli 2014
جرمن چانسلر کے بقول روس پر پابندیاں ناگزیر ہو گئی تھیںتصویر: Reuters

یوکرائن بحران کے آغاز سے ہی یورپی یونین روس کے متعدد اعلیٰ سرکاری اہلکاروں اور کمپنیوں کو پابندیوں کا نشانہ بناتی آئی ہے۔ تاہم ان تازہ سخت پابندیوں کو ماسکو حکومت کے لیے ایک وارننگ تصور کیا جا رہا ہے۔ یورپی کونسل کے صدر ہیرمان فان رومپوئے نے کہا ہے کہ منگل کے دن اٹھائے گئے اقدامات سے روس اپنے مؤقف میں لچک لانے کے بارے میں سوچے گا۔

جرمن چانسلر انگیلا میرکل نے بھی کہا ہے کہ روس کو دی جانے والی متعدد ایسی وارننگز کہ کریمیا کا روس کے ساتھ الحاق اور باغیوں کی مالی و انتظامی مدد ناقابل قبول ہیں، ان پابندیوں کا اطلاق لازمی ہو گیا تھا۔ انہوں نے کہا، ’’اس بات کا فیصلہ اب روسی رہنماؤں نے کرنا ہے کہ آیا وہ خطے میں کشیدگی کم کرتے ہوئے تعاون کی راہ اختیار کرنا چاہتے ہیں یا نہیں۔

چانسلر میرکل نے مزید کہا کہ یورپی یونین کی طرف سے روس پر عائد کی جانے والی پابندیوں پر نظر ثانی ممکن ہے لیکن تعاون نہ کرنے کی صورت میں ایسے مزید اقدامات بھی اٹھائے جا سکتے ہیں۔

یہ امر اہم ہے کہ متعدد یورپی ممالک اپنی اقتصادی سرگرمیوں کے حوالے سے روس پر انحصار کرتے ہیں اور ناقدین کے بقول روس پر سخت اقتصادی پابندیاں عائد کرنے کے فیصلے میں تاخیر بھی اسی حقیقت کا سبب ہو سکتی ہے۔