یورپ میں ’اقتصادی شینگن‘ کی تجویز
28 نومبر 2014جرمنی اور فرانس یورپ کی سب سے بڑی اقتصادی طاقتیں ہیں۔ اقتصادی ماہرین یورپ کی اقتصادی بحالی کے لیے انہی طاقتوں کے کردار پر مشتمل ایک منفرد خیال سامنے لائے ہیں۔
ان میں سے ایک اقتصادیات کے پروفیسر ہینرک اینڈرلائن ہیں، جن کا کہنا ہے: ’’آج ہمیں جس چیز کی ضرورت ہے وہ ہے مشترکہ کارروائی۔‘‘
انہوں نے یہ باتیں ان دونوں ملکوں کے لیے اصلاحات کی سفارشات پیش کرتے ہوئے کہیں۔ انہوں نے اس خیال کو ’اقتصادی شینگن‘ قرار دیا جو دراصل متعدد یورپی ملکوں کے درمیان سرحدوں سے آزاد شینگن معاہدے سے لیا گیا ہے۔
اس تناظر میں اینڈرلائن نے مشترکہ قوانین اور اداروں کی ضرورت کا حوالہ دیا، بالخصوص انرجی ڈویلپمنٹ اور ڈیجیٹل اقتصادیات کے شعبوں میں۔
جرمن وزیر اقتصادیات زیگمار گابریئل کا کہنا ہے کہ اقتصادی شینگن ایک اچھوتا خیال ہے۔ ان کے فرانسیسی ہم منصب عمانوئل مارکوں نے فرانسیسی دارالحکومت پیرس میں ایک ملاقات کے بعد کہا کہ دونوں ملکوں کو باہمی تعاون بڑھانے کی ضرورت ہے۔
ماہرین نے فرانس میں اصلاحات اور جرمنی سے سرمایہ کاری بڑھانے کے لیے زور دیا ہے۔ اینڈرلائن نے اس تجویز کے لیے اپنے شریک مصنف ژاں پیزینی فیری کے ساتھ فرانس کے لیے اقتصادی شرح نمو بڑھانے کے ایک ماڈل کی سفارش کی ہے۔ اس ماڈل کی بنیاد ورکرز کے لیے زیادہ سے زیادہ سہولت اور ان کی سکیورٹی پر ہو گی جبکہ مسابقت کے لیے زیادہ سے زیادہ مواقع اور بیوروکریسی کے کردار کو کم سے کم کرنے پر بھی توجہ دی جائے گی۔
ان اقتصادی ماہرین نے کہا ہے کہ جرمنی کو اپنی لیبر مارکیٹ میں مزید تارکینِ وطن اور خواتین کو شامل کرنا چاہیے اور طلب میں اضافہ کرنا چاہیے۔ انہوں نے یورپی یونین کی اس سب سے بڑی اقتصادی طاقت پر زور دیا کہ نئی سرمایہ کاری کو آئندہ تین برسوں میں بڑھا کر 24 بلین یورو تک کر دیا جائے۔
تاہم زیگمار گابریئل نے اس ہدف کے حصول پر شکوک و شبہات کا اظہار کیا۔ اینڈرلائن اور پیزینی فیری کا کہنا تھا کہ دونوں ملکوں کے مسائل ایک دوسرے سے بہت مختلف ہیں۔ انہوں نے کہا کہ فرانس اس وقت خود کو زیادہ مشکل صورتِ حال میں محسوس کر رہا ہے۔ تاہم انہوں نے کہا کہ بہتر پوزیشن تک پہنچنے کے لیے فرانسس کے امکانات ’برے نہیں‘ ہیں۔
ان ماہرینِ اقتصادیات نے خبردار کیا کہ جرمنی کی آبادی کم ہو رہی ہے جس کی وجہ سے مستقبل میں اسے بڑے اقتصادی مسائل کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔