1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

کراچی کے نزدیک نئے ایٹمی بجلی گھر: منصوبے پر عوامی تشویش

رفعت سعید، کراچی29 اپریل 2015

پاکستان کے سب سے بڑے شہر کراچی کے شہری جہاں بجلی کی عدم دستیابی سے نالاں رہتے ہیں، وہیں وہ اب اس بات پر بھی تشویش کا شکار ہیں کہ شہر کے نواح میں نئے ایٹمی بجلی گھروں کا منصوبہ ان کے لیے پرخطر بھی ہو سکتا ہے۔

https://p.dw.com/p/1FHAS
تصویر: Asif Hassan/AFP/Getty Images

چین کے تعاون سے کراچی نیوکلیئر پاور پلانٹ کے توسیعی منصوبے K2 اور K3 کے بارے میں شہریوں کی عمومی رائے یہ ہے کہ بجلی کی ضرورت اپنی جگہ لیکن ایٹمی بجلی گھروں کے بجائے اگر کسی دوسرے طریقے سے بجلی پیدا کی جائے تو وہ کراچی کے شہریوں کے لیے زیادہ محفوظ متبادل ہو گا۔

چھبیس نومبر دوہزار تیرہ کو گیارہ گیارہ سو میگاواٹ کے ان دو ایٹمی بجلی گھروں کا سنگ بنیاد وزیر اعظم نواز شریف نے رکھا اور پاکستان میں پانچویں اور سب سے بڑے نیوکلیئر منصوبے کوسٹل پاور پروجیکٹ کی افتتاحی تقریب سے خطاب میں مزید چھ نیوکلیئر پلانٹس لگانے کا عندیہ دیا گیا جو نیوکلیئر انرجی ویژن 2050 کی جانب سفر کی شروعات ہے۔ تاہم اس منصوبے کے خلاف غیرسرکاری تنظیموں اور سول سوسائٹی کے نمائندوں نے عدالت سے رجوع کر لیا ہے۔

اس حوالے سے غیر سرکاری تنظیم شہری،معروف سائنسداں پرویز ہود بھائی، آسکر ایوارڈ یافتہ فلم ڈائریکٹر شرمین عبید چنائے اور قائد اعظم یونیورسٹی کے سابق فیکلٹی ممبر اے ایچ نیئر نے اپنی مشترکہ درخواست میں موقف اختیار کیا ہے کہ نئے جوہری پلانٹس کی تعمیر سے کراچی کی دو کروڑ سے زائد کی آبادی براہ راست خطرے کی زد میں آ جائے گی۔ بعد میں اس درخواست میں پاکستان فشرفوک فورم اور مزدوروں کے حقوق کے لیے کام کرنے والی تنظیم پائلر بھی فریق بن گئیں۔ پائلر نے موقف اختیار کیا کہ ہے وہ منصوبے کی تعمیرمیں شریک مزدروں کے حقوق اور صحت کو درپیش خطرات کے سبب فریق بنی ہے۔

کراچی کے شہری یقینی طور پر زیادہ بجلی کی دستیابی کی خواہش رکھتے ہیں تاہم یوکرائن میں چرنوبل اور پھر جاپان میں فوکوشیما کے ایٹمی پلانٹ میں حادثات کے بعد لوگوں میں یہ خوف بڑھ گیا ہے کہ یہ ٹیکنالوجی محفوظ نہیں ہے۔ سندھ ہائی کورٹ کے حکم پر کراچی پلانٹ کے توسیعی منصوبوں پر ایک عوامی عدالت میں زیادہ تر لوگوں نے اپنے خوف کا برملا اظہار کیا۔

رولینڈ ڈی سوزا غیر سیاسی تنظیم شہری کے رکن ہونے کے حوالے سے اس بحث میں پیش پیش ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ دنیا میں کہیں بھی نہیں ہوتا کہ اتنی بڑی آبادی کسی ایٹمی بجلی گھر سے محض 30 کلومیٹر دور ہو۔ اور پھر 2021 سے لے کر جب ان منصوبوں کی تکمیل ہو گی اور 2080 تک جب یہ اپنی زندگی پوری کریں گے، کراچی کی آبادی میں جتنا اضافہ ہو چکا گا، کیا کسی نے اس کو بھی سامنے رکھ کر سوچا ہے کہ یہ منصوبہ کتنا بڑا خطرہ ہو گا۔

Pakistan Karachi Hafen
مخالفین کا دعویٰ ہے کہ یہ ایٹمی منصوبے شہری آبادی اور مچھیروں کو متاثر کر سدکتے ہیںتصویر: Asif Hassan/AFP/Getty Images

وہ کہتے ہیں کہ معمولی نقصان تو کسی زلزلے کے جھٹکے یا دشمن کے حملے سے بھی ہو سکتا ہے اور کراچی کے شہری اس کا خمیازہ بھگتتے رہیں گے۔ واضح رہے کہ کراچی تین مختلف قدرتی فالٹ لائنز کے جوڑ پر آباد شہر ہے، جس کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ اگر کبھی یہاں زلزلہ آیا تو کچھ بھی نہیں بچے گا۔ زلزلے کے چھوٹے موٹے جھٹکے تو یہاں ہر دور پار کے زلزلوں کے بعد بھی محسوس کیے جاتے ہیں۔

کراچی نیوکلیئر پاور پلانٹ از خود بھی پچھلے ہی دنوں ایک چھوٹے سے حادثے کا شکار ہو چکا ہے۔ وہاں بدھ کے روز اس وقت عارضی طور پر ہنگامی حالت نافذ تھی جب ایک پائپ سے بھاری پانی کا اخراج ہوا۔ پاکستان کے ایٹمی توانائی کمیشن کے چیئرمین ڈاکٹر عنصر پرویز کے مطابق پلانٹ میں ایک لاکھ تیس ہزار کلوگرام بھاری پانی موجود تھا۔ اس میں سے ایک جگہ تھوڑا سا پانی خارج ہوا تھا۔ عنصرپرویز کے مطابق ایک حد تک پانی کا اخراج برداشت کیا جا سکتا ہے لیکن اگر اس سے تھوڑا سا بھی زیادہ بھاری پانی اخراج ہو تو اسٹیشن ایمرجنسی کا اعلان کر دینا چاہیے۔ اس دن بھی ایمرجنسی کے بعد کارکنوں نے اس پانی کا اخراج بند کر دیا تھا اور جو بھاری پانی خارج ہوا تھا، اس میں سے 80 فیصد پانی دوبارہ جمع کرلیا گیا تھا۔

اکتوبر2011 میں بھی اس ایٹمی بجلی گھر سے بھاری پانی کے اخراج کے بعد پلانٹ کو غیر معینہ مدت کے لیے بند کر دیا گیا تھا جبکہ حکومتِ پاکستان نے اس وقت بھی اسے ایک معمولی واقعہ قرار دیا تھا۔

ڈاکٹر عنصر پرویز اب اس بات پر مصر ہیں کہ نئے منصوبوں کے لیے ہر قسم کی احتیاطی تدابیر اختیار کر لی گئی ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ حکومت نے اس منصوبے پر 30 سے 40 فیصد تک اضافی خرچہ محض اس لیے کیا ہے کہ حفاظتی اقدامات کو یقینی بنایا جا سکے، جاپان میں زلزلے اور فوکوشیما ایٹمی پلانٹ کے حوالے سے ان کا کہنا ہے کہ وہاں بھی اگر فیصلے سیاسی کے بجائے ٹیکنیکل قیادت کے ہاتھ میں ہوتے، تو مسئلہ اتنا سر نہ اٹھاتا۔

حکومتِ پاکستان اس بات کا مصمم ارادہ کر چکی ہے کہ نہ صرف یہ بلکہ کراچی میں مزید ایٹمی بجلی گھر بنائے جائیں گے۔ سندھ ہائی کورٹ کے فیصلے کی روشنی میں لوگوں کی رائے ضرور منصوبوں کی ماحولیاتی رپورٹ میں شامل کی جائے گی لیکن کیا اس سے یہ کام رک سکے گا؟ اور اگر یہ منصوبے پایہ تکمیل کو پہنچے، تو کیا اس سے کراچی کے شہریوں اور خاص طور پر مچھیروں کی زندگیوں کو کوئی خطرہ نہیں ہو گا؟ یہی وہ سوال ہیں، جن کے جواب میں کراچی شہر کا مستقبل پوشیدہ ہے۔ یہ شہر اب بھی روشنیوں کا شہر تو کہلانا چاہتا ہے، لیکن کس قیمت پر؟

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں

اس موضوع سے متعلق مزید