1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

پاکستان میں جوہری توانائی اور ماحولیات سے متعلق خدشات

رفعت سعید، کراچی4 دسمبر 2013

ایک ایسے وقت میں جب دنیا جوہری توانائی کے بارے میں ماحولیات کے حوالے سے اندیشے لیے بیٹھی ہے، پاکستان نے جوہری توانائی کی طرف ایک اور قدم بڑھایا ہے۔

https://p.dw.com/p/1APyD
تصویر: AP

پاکستان میں رواں ہفتے کراچی کے قریب اب تک کے سب سے بڑے ایٹمی بجلی گھر کا سنگ بنیاد رکھا گیا ہے۔ تکمیل کے بعد اس جوہری پاور پلانٹ سے 2200 میگا واٹ بجلی حاصل ہو گی۔

ہمدرد یونیورسٹی کے سابق وائس چانسلرڈاکٹرنسیم اے خان کا کہنا ہے کہ سولوانرجی کے منصوبوں کے لیے حکومت کے پاس وسائل نہیں ہیں جبکہ یہ پراجیکٹ خاصے مہنگے ہیں اگرکوئی کمپنی پلانٹ لگائے گی تو وہ اپنے نرخ مرضی سے طے کرے گی ان کا کہنا ہے کہ وہ ہمیشہ ماحولیات کے حوالے سے متبادل توانائی کے تمام منصوبوں کی حمایت اورتائید کریں گے۔

ماہرین کے مطابق شمسی توانائی سے پوری دنیا کی بجلی کی ضرورت باآسانی پوری ہوسکتی ہے
ماہرین کے مطابق شمسی توانائی سے پوری دنیا کی بجلی کی ضرورت باآسانی پوری ہوسکتی ہےتصویر: Reuters

ماہرین کے مطابق پاکستان میں نیوکلیئر انرجی کے منصوبے محفوظ تو ہیں مگرسیفٹی کے مسائل درپیش ہیں کیونکہ نیوکلیئرانرجی کے حصول کے لیے ہمیں درآمد شدہ فیول پرانحصارکرنا ہوگا۔

ڈاکٹر نسیم کہتے ہیں کہ اگر ماحولیات کے حوالے سے دیکھا جائے تو متبادل توانائی کے تمام طریقے پاکستان کے لیے بہترین حل ہیں۔ چاہے وہ شمسی توانائی ہو، ہوا کی مدد سے ہو یا پانی کی مدد سے بجلی کی تیاری۔ ان کا کہنا ہے کہ دنیا میں کوئلے یعنی کول انرجی میں سرمایہ کاری کم ہو رہی ہے اس لیے کہ یہ ماحولیاتی آلودگی کا سبب ہے۔ جوہری سائنسدان یہ بھی کہتے ہیں کہ کسی بھی متبادل راستے کو اپنانے سے پہلے یہ دیکھنا ضروری ہوگا کہ کس طریقے پر کتنے پیسے خرچ ہوتے ہیں۔

نیوکلیئرسائنسدان ڈاکٹرعبدالصمد کا کہنا ہے کہ ونڈ اورسولرانرجی کی لاگت بہت زیادہ ہے مگر نیوکلیئرانرجی کے پلانٹ نہایت محفوظ اورسستے ہیں جس کی مثال چشمہ اورکینپ کے بجلی گھرہیں۔ ڈاکٹر عبدالصمد کہتے ہیں کہ صوبہ سندھ کے ریگستان تھرمیں کوئلے کے ذخائر تک رسائی حاصل کرنے کے لیے پانچ سوتیس فٹ گہرائی تک جانا ہوگا۔ پھر نوے میٹرتک ریت کو ہٹا کراینگل آف ری پول تک رسائی حاصل کرنا ہوگی تبھی توانائی کے منصوبوں کے لیے فیول حاصل ہوسکے گا۔ ان کا کہنا ہے کہ نواز شریف کے پچھلے دورِ حکومت میں پاکستان ایک باضابطہ جوہری قوت کے طور پر سامنے آیا تھا اور بلوچستان میں چاغی کے مقام پر پاکستان نے جوہری دھماکے کئے تھے۔ آج اس تجربے کی ٹیم کے زیادہ تر سائنسدان متبادل توانائی پر کام کرتے نظر آتے ہیں۔

دنیا بھر میں جوہری پاور پلانٹس کو ختم کرنے کی کوششیں کی جا رہی ہیں
دنیا بھر میں جوہری پاور پلانٹس کو ختم کرنے کی کوششیں کی جا رہی ہیںتصویر: AP

ایٹمی سائنسدان ڈاکٹرثمرمبارک کوئلے کی مدد سے بجلی کی تیاری کی حمایت کرتے ہیں۔ ڈاکٹر ثمر کا کہنا ہے: ’’پاکستان کو توانائی کے بحران سے نکالنے کے لیے کول کا استعمال اب ناگزیزہے، تھرکول پرجب کام شروع کیا گیا تو ورلڈ بینک نے ماحولیاتی آلودگی پرتحفظ ظاہرکردیا جس پر ورلڈ بینک کی ٹیم کو آگاہ کردیا گیا ہے کہ کوئلے سے زیرزمین توانائی حاصل کرنے کا محفوظ طریقہ اپنایا گیا ہے جبکہ کول سے خارج ہونے والے کاربن ڈائی اکسائیڈ کو دوبارہ بطور ایندھن استعمال کرنے کا انتظام ہے۔ پوری دنیا میں پچاس ہزارمیگاواٹ بجلی صرف کول سے حاصل کی جارہی ہے۔‘‘

عالمی سائنسدان توانائی کے جن متبادل ذرائع پر تحقیق کررہے ہیں ان میں شمسی توانائی سرفہرست ہے۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ زمین پرسورج کی پڑنے والی کرنوں سے اتنی انرجی حاصل کی جاسکتی ہے کہ پوری دنیا کی بجلی کی ضرورت باآسانی پوری ہوسکتی ہے تاہم اس کے لیے سپرمائیکروسولرپینل کی ضرورت پڑے گی۔ امریکا اورجرمنی سپرمائیکروسولرپینل کی تیاری پرکام کررہے ہیں اورجرمنی اس حوالے سے کامیابیاں سمیٹ رہا ہے۔

پاکستان میں سائنسدان برادری اس موضوع پر خاصی بٹی ہوئی ہے کہ پاکستان کا مستقبل اس حوالے سے کیا ہے۔ نسیم کہتے ہیں کہ فیصلے کرنے والوں کا زیادہ تر تعلق توانائی کے پرانے طریقوں سے رہا ہے اور اب کسی بھی نئے خیال پر کام کرنا ان کے لیے مشکل ہوتا ہے۔ ایسی صورت میں ماحولیات یا سائنس کی نہیں صرف معاشی معاملات پر بات ہوپاتی ہے۔ اور نتیجے میں پاکستان وہیں آ کھڑا ہوتا ہے جہاں سے دنیا آگے جا چکی ہے۔