1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

کراچی میں پھر سے ’ماورائے عدالت ہلاکتوں‘ کی گونج

رفعت سعید، کراچی30 مارچ 2015

کراچی میں قیام امن کے لیے آپریشن کے آغاز کے بعد سے ماضی کی طرح مبینہ ماورائے عدالت ہلاکتوں کے خلاف صدائیں پھر سے بلند ہونے لگی ہیں۔ اس حوالے سے سب سے زیادہ احتجاج ایم کیو ایم کی جانب سے سامنے آیا ہے۔

https://p.dw.com/p/1EzZK
کراچی میں گشت کرتے رینجرز کے دستے، فائل فوتوتصویر: Reuters

پاکستانی صوبہ سندھ کے شہری علاقوں میں اثر و رسوخ رکھنے والی جماعت متحدہ قومی موومنٹ کے خلاف 1992، 1995 اور پھر 1998 میں بھی سکیورٹی فورسز کی طرف سے آپریشن کیا گیا تھا اور اس دوران ’ریاستی جبر‘ کا الزام ملک کی دونوں بڑی سیاسی جماعتوں پاکستان مسلم لیگ (ن) اور پیپلز پارٹی پرعائد کیا جاتا رہا تھا۔

اس وقت کراچی میں جاری ٹارگٹڈ آپریشن ایم کیو ایم سیمت تمام جماعتوں کی حمایت سے شروع کیا گیا تھا اور ایم کیو ایم دو قدم آگے بڑھ کر آپریشن کے اس مطالبے کا کریڈٹ بھی لیتی ہے۔ ایم کیو ایم کے قائد الطاف حسین قیامِ امن کے لیے شہر کو فوج کے سپرد کرنے کا مطالبہ بھی کرچکے ہیں، جس پر اس پارٹی کی مقامی قیادت کو دیگر سیاسی جماعتوں کی جانب سے شدید تنقید اور مخالفت کا سامنا بھی رہا ہے۔

دیگر سیاسی جماعتیں تو کئی برسوں سے کراچی کے خراب حالات کا ذمہ دار ایم کیو ایم کو ہی قرار دیتی رہی ہیں۔ سندھ میں حکمران جماعت پاکستان پیپلز پارٹی کے کئی رہنما بھی ایم کیو ایم کے ساتھ شراکت اقتدار کے باوجود ٹارگٹ کلنگ کا ذمہ دار براہ راست یا بالواسطہ طور پر ایم کیو ایم کو ہی قرار دیتے رہے ہیں۔

Faisal Mehmood, angeklagt für den Mord an dem Journalisten Wali Babar
صحافی ولی بابر کے قتل میں ملوث فیصل محمود عرف فیصل موٹا جو ایم کیو ایم کے ہیڈ کوارٹرز سے گرفتار کیا گیاتصویر: Sindh Rangers

ایم کیو ایم کے رہنما حیدر عباس رضوی نے ڈوچے ویلے سے بات چیت کرتے ہوئے کہا کہ موجودہ آپریشن کے آغاز سے ایم کیو ایم کے 36 کارکن ماورائے عدالت واقعات میں قتل کیے جا چکے ہیں اور ایک درجن سے زائد تاحال لاپتہ ہیں۔ حیدر عباس رضوی کا کہنا ہے کہ اس بار طریقہ کار کچھ مختلف ہے۔ ’’سیاہ رنگ کی ڈبل کیبن گاڑی میں سوار نامعلوم افراد کارکنوں کو گھروں سے لے جاتے ہیں۔ پھر ان کو بدترین تشدد کا نشانہ بناکر قتل کردیا جاتا ہے اور لاشیں ویرانوں میں پھینک دی جاتی ہیں۔ اب بھی شہر کے مضافات سے کوئی لاش ملنے کی خبر چلتی ہے تو بارہ لاپتہ کارکنوں کے گھروں میں کہرام مچ جاتا ہے۔‘‘

حیدر عباس رضوی کہتے ہیں کہ آپریشن کا مطالبہ تو ایم کیو ایم کا تھا لیکن کالعدم تنظیمیں قانون نافذ کرنے والے اداروں کے اہلکاروں پر خود کش حملے کر رہی ہیں جبکہ زمین ایم کیو ایم کے کارکنوں پر تنگ کی جا رہی ہے۔

وزیر اعلٰی سندھ قائم علی شاہ کہتے ہیں کہ ایم کیو ایم کے پاس سندھ کے شہری عوام کا مینڈیٹ ہے اور وہ خود ایم کیو ایم کو دہشت گرد نہیں سمجھتے۔ ان کے مطابق موجود آپریشن کسی مخصوص پارٹی کے خلاف نہیں بلکہ جرائم پیشہ افراد کے خلاف کیا جا رہا ہے، جس میں اب تک 800 سے زائد دہشت گرد مارے جا چکے ہیں۔ ’’ان میں سے پچاس فیصد کا تعلق کالعدم تنظیموں سے تھا۔ یہی وجہ ہے کہ دہشت گردوں نے بھی جواباﹰ پولیس اور رینجرز کے اہلکاروں کو نشانہ بنایا ہے۔ لیکن قانون نافذ کرنے والے ادارے بلاتفریق کارروائی کر رہے ہیں۔ ہمارا اولین مقصد کراچی کی روشنیاں بحال کرنا ہے اور اس مقصد کا حصول شروع ہو چکا ہے۔ ٹارگٹ کلنگ میں 60 فیصد تک کمی ہو چکی ہے۔‘‘

یہ بھی حقیقت ہے کہ ماضی میں ایم کیو ایم کے خلاف کارروائی کرنے والے تقریباﹰ تمام پولیس افسران قتل کیے جا چکے ہیں اور جو زندہ ہیں ان سے کئی ملک چھوڑ کر جا چکے ہیں۔ صرف ایک راؤ انوار ہیں جو ابھی تک کراچی میں ہی تعینات ہیں۔

ایم کیو ایم راؤ انوار پر الزام عائد کرتی رہی ہے کہ وہ مبینہ طور پر الطاف حسین کے بھائی اور بھتیجے ہی کو نہیں بلکہ کئی دیگر کارکنوں کے ماورائے عدالت قتل کے بھی ذمے دار ہیں۔ مگر اس بار راؤ انوار کالعدم تنظیموں کے خلاف سرگرم ہیں۔ وہ ایسے مبینہ مقابلوں میں 30 سے زائد دہشت گردوں کو ہلاک کر چکے ہیں اور ان میں سے ایک بھی ایم کیو ایم کا کارکن نہیں تھا۔

راؤ انوار کے دہشت گردوں کے ساتھ مسلح مقابلوں کو عرف عام میں ’چائنہ مقابلوں‘ کا نام دیا جاتا ہے کیونکہ مقابلہ شروع ہونے کی خبر سے اختتام تک کا سفر چند ہی منٹوں پر محیط ہوتا ہے اور ان میں صرف دہشت گرد ہی مارے جاتے ہیں۔ ان مقابلوں میں ملوث دہشت گرد جدید ہتھیاروں سے لیس ہوتے ہیں مگر کبھی کوئی پولیس اہلکار زخمی نہیں ہوتا۔

Pakistan Mitglieder der Oppositionspartei MQM vor Gericht
ایم کیو ایم کے زیر حراست ارکان کو عدالت میں پیشی کے لیے لے جایا جا رہا ہےتصویر: Reuters/A. Soomro

ڈوچے ویلے سے گفتگو کرتے ہوئے ایس ایس پی ملیر کے عہدے پر فائز راؤ محمد انوار کا کہنا تھا کہ وہ صرف اپنی ڈیوٹی انجام دے رہے ہیں۔ ان پر الزامات پہلے بھی تھے سو اب بھی ہیں۔ مگر بطور پولیس افسر ان کا یہ فرض ہے کہ وہ جرائم کا خاتمہ کریں اور جو کوئی پولیس پر بندوق اٹھاتا ہے، وہی مقابلے میں مارا جاتا ہے۔

اس مرتبہ آپریشن کا ایک نیا پہلو یہ ہے عدلیہ میں بعض ایسے افراد کے ورثا کی درخواستیں زیر سماعت ہیں جو راؤ انوار اور ان کے ماتحت افسران کے ہاتھوں مبینہ مقابلوں یا مبینہ طور پر ایم کیو ایم کے کارکن ہونے کی وجہ سے اغوا کے بعد قتل کردیے گئے۔

اسی دوران پاکستانی سپریم کورٹ نے انور سومرو نامی سائل کی جانب سے اس کے بیٹے کی ایک مبینہ مقابلے میں ہلاکت سے متعلق درخواست پر کارروائی کرتے ہوئے تھانہ سہراب گوٹھ اور تھانہ سچل کے تھانے داروں انسپکٹر اسماعیل لاشاری اور سب انسپکٹر شعیب کو نہ صرف معطل کردیا ہے بلکہ ساتھ ہی یہ حکم بھی دیا ہے کہ اس کیس کے فیصلے تک ان دونوں پولیس افسران کو دوبارہ کہیں تعینات نہ کیا جائے۔ دوسری طرف ایم کیو ایم کے کارکن فراز کی پولیس حراست میں موت کا معمہ اعلٰی عدلیہ کے تحت جوڈیشل کمیشن کے قیام کے باوجود تاحال حل نہیں ہوسکا۔ پولیس اپنے بیان پر قائم ہے کہ فراز دل کا دورہ پڑنے سے ہلاک ہوا اور اس کا ثبوت اس کی پوسٹ مارٹم رپورٹ ہے۔

سیاسی مبصرین کا کہنا ہے کہ ایم کیو ایم پر لگایا جانے والا ہر الزام سو فیصد غلط بھی نہیں ہے۔ ماضی میں رونما ہونے والے کئی سنگین جرائم میں ایم کیو ایم کے کارکن کسی نہ کسی سطح پر ملوث رہے ہیں مگر یہ بھی ضروری نہیں کہ کسی کارکن کے ذاتی فعل کو ایم کیو ایم کی پارٹی پالیسی ہی سمجھ لیا جائے۔ تاہم صحافی ولی بابر کے قتل کے جرم میں سزائے موت پانے والے مجرم فیصل موٹا کی ایم کیو ایم کے مرکز سے گرفتاری خود اس پارٹی کے لیے بھی سوالیہ نشان بنی ہوئی ہے، جس کا کوئی تسلی بخش جواب اب تک خود ایم کیو ایم بھی نہیں دے پائی۔

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں

اس موضوع سے متعلق مزید