1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

پھانسی مؤخر، ایم کیو ایم قیادت پر سنگین الزامات

رفعت سعید، کراچی19 مارچ 2015

متحدہ قومی موومنٹ کے رکن صولت مرزا نے اپنی سزائے موت پر عملدرآمد سے چند گھنٹے قبل جو اعترافی بیان جاری کیا، اُس نے پورا منظر نامہ ہی بدل ڈالا ہے۔ سزا پر عملدرآمد مؤخر ہوا اور ساتھ ہی ایک نیا پنڈورا باکس بھی کھل گیا۔

https://p.dw.com/p/1Et2C
رات بارہ بجے نشر ہونے والے صولت مرزا کے بیان نے پاکستان کی سیاست میں تہلکا مچا دیا ہے
رات بارہ بجے نشر ہونے والے صولت مرزا کے بیان نے پاکستان کی سیاست میں تہلکا مچا دیا ہےتصویر: YouTube

کراچی الیکٹرک سپلائی کارپوریشن کے منیجنگ ڈائریکٹر شاہد حامد کے قتل پر سزائے موت پانے والے صولت مرزا کا ایک ویڈیو اعترافی بیان بدھ کے روز پاکستان کے مخصوص نجی ٹی وی چینلز کو جاری کیا گیا، جس میں مجرم نے اپنے جرائم کا نہ صرف اعتراف کیا بلکہ ایم کیو ایم کے قائد الطاف حسین کے ساتھ ساتھ لندن میں محمد انور، ندیم نصرت، کینیڈا میں صفدر باقری اور پاکستان میں بابر خان غوری، حیدر عباس رضوی اور عامر خان کا نام لے کر الزامات عائد کیے کہ جرائم کی وارداتوں کے لیے ہدایات بالواسطہ یا بلاواسطہ انہی لوگوں سے ملتی تھیں۔

صولت مرزا نے اپنے ویڈیو پیغام میں ایم کیو ایم کے قائد الطاف حسین پر سنگین الزامات عائد کیے ہیں
صولت مرزا نے اپنے ویڈیو پیغام میں ایم کیو ایم کے قائد الطاف حسین پر سنگین الزامات عائد کیے ہیںتصویر: Getty Images/ASIF HASSAN/AFP

صولت مرزا نے پارٹی کے مقتول چیئرمین کے قتل کا ذمہ دار بھی الطاف حسین کو قرار دیا اور شاہد حامد کے قتل کا جرم قبول کرتے ہوئے کہا کہ انہیں ایم ڈی کے ای ایس سی کے قتل کی ہدایت الطاف حسین نے بابر غوری کے گھر پر ٹیلی فون کے ذریعے دی تھیں۔ حیران کن طور پر سابق سٹی ناظم کراچی مصطفٰی کمال صولت مرزا کے بیان میں ہیرو ہیں جبکہ مہاجر قومی موومنٹ کے چیئرمین آفاق احمد عظیم طارق کے قتل بعد سے ہی مصطفٰی کمال کو ذمہ دار قرار دیتے رہے ہیں اور پولیس ریکارڈ سے بھی آفاق احمد کے الزام کو تقویت ملتی ہے۔

صولت مرزا نے ایم کیو ایم کے کارکنوں کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ وہ کچھ عرصہ قبل سے بات کرنا چاہ رہے تھے لیکن کوئی مناسب فورم نہیں مل پا رہا تھا۔ صولت کا کہنا تھا کہ ایم کیو ایم کے رہنما کارکنوں کو اپنا کام نکالنے کے لیے استعمال کرتے ہیں جبکہ اُن کے پکڑے جانے پر اُن سے لاتعلقی کا اعلان کر دیتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ ایم کیو ایم کے کارکنوں کو انہیں نشان عبرت سمجھنا چاہیے۔ وہ ایم کیو ایم کے کارکن تھے لیکن پارٹی نے انہیں ٹشوپیپر کی طرح استعمال کر کے پھنک دیا۔ صولت مرزا نے گورنر سندھ ڈاکٹر عشرت العباد خان پر بھی الزام عائد کیا کہ وہ ایم کیو ایم کے کارکنوں کو گرفتاری کے بعد سہولتیں بہم پہنچاتے ہیں۔

صولت کا کہنا تھا کہ ایم کیو ایم کے رہنما کارکنوں کو اپنا کام نکالنے کے لیے استعمال کرتے ہیں جبکہ اُن کے پکڑے جانے پر اُن سے لاتعلقی کا اعلان کر دیتے ہیں
صولت کا کہنا تھا کہ ایم کیو ایم کے رہنما کارکنوں کو اپنا کام نکالنے کے لیے استعمال کرتے ہیں جبکہ اُن کے پکڑے جانے پر اُن سے لاتعلقی کا اعلان کر دیتے ہیںتصویر: Reuters/A. Soomro

رات بارہ بجے نشر ہونے والے صولت مرزا کے اس بیان نے پاکستان کی سیاست میں تہلکا مچا دیا ہے۔ رات گئے سیاسی جماعتوں اور تجزیہ کاروں کے تبصرے آنا شروع ہو گئے۔ عوامی نیشنل پارٹی اور تحریک انصاف نے واضح موقف اختیار کرتے ہوئے تحقیقات کا مطالبہ کر دیا۔

تجزیہ کاروں کے مطابق صولت مرزا کو پاکستان کی عدالتی تاریخ میں جو سہولت فراہم کی گئی ہے، وہ پھانسی سے قبل ملک کے وزیر اعظم تک کو میسر نہیں آئی۔

سینیئر صحافی اور تجزیہ کار مظہر عباس نے ڈوئچے ویلے سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ پھانسی سے قبل صولت مرزا کا بیان دینا اور پھر اس بیان کا ٹی وی پر نشر ہونا بہت سے سوالات کو جنم دیتا ہے:’’یہ پاکستان کی تاریخ میں اپنی نوعیت کا پہلا واقعہ ہے، سوال یہ بھی ہے کہ یہ ویڈیو کس نے بنائی اور وہ کون ہے، جس نے یہ ویڈیو ٹی وی چینلز کو جاری کی؟ مگرایم کیو ایم کے تنظمی مسائل بھی ہیں اور پھر یہ سوال بھی ہے کہ ضمنی انتخابات اور بلدیاتی انتخابات پر اس کا کیا اثر پڑے گا؟ اصل چیز یہ ہے کہ اس بیان کے بلدیہ ٹاؤن سانحے کی تحقیقات اور عمیر صدیقی کے مقدمات پر کیا اثرات مرتب ہوں گے؟ لیکن ایم کیو ایم کا اس بیان پر موقف آنا بہت ضروری ہے اور ایسا موقف آنا چاہیے، جو لوگوں کو مطمئن کر سکے۔

معروف صحافی اور اینکر پرسن حامد میر کا کہنا تھا کہ صولت مرزا نے اپنے بیان میں پیپلز پارٹی کے دور حکومت میں ملنے والی سہولیات کا ذکر تو کیا لیکن ایم کیو ایم سب سے زیادہ آزادی کے ساتھ تو جنرل پرویز مشرف کے دور میں کام کرتی رہی ہے۔ ان نو سالوں میں تو سنگین مقدمات میں مطلوب ملزمان پے رول پر رہا بھی کیے گئے تھے مگر حیرت ہے کہ صولت مرزا نے اس بارے میں کچھ نہیں کہا۔

کیا ایم کیو ایم جماعت اپنی روایت کے مطابق پہلے سے زیادہ طاقت سے ابھرے گی؟ کیا یہ معاملہ الطاف حسین کی پارٹی سے علیحدگی پر ختم ہو گا؟
کیا ایم کیو ایم جماعت اپنی روایت کے مطابق پہلے سے زیادہ طاقت سے ابھرے گی؟ کیا یہ معاملہ الطاف حسین کی پارٹی سے علیحدگی پر ختم ہو گا؟تصویر: picture-alliance/dpa

ایم کیو ایم کے قائد الطاف حسین، رابطہ کمیٹی اور بابر غوری نے فوری طور پر صولت مرزا کے بیان کی تردید کرتے ہوئے انہیں جھوٹ کا پلندہ قرار دے دیا۔ الطاف حسین کا کہنا تھا کہ ایم کیو ایم کا ایک بار پھر میڈیا ٹرائل کیا جا رہا ہے اور ایجنسیاں ملک اور بیرون ملک ایم کیو ایم کا امیج خراب کرنا چاہتی ہیں:’’میرے کارکنوں نے بہت مصیبتیں جھیلی ہیں، وہ اس بے بنیاد پروپگینڈا سے متاثر نہیں ہوں گے۔‘‘ الطاف حسین نے رینجرز کی جانب سے بھی اپنے خلاف مقدمے کو بے بنیاد قرار دیا۔

بابر غوری نے ڈوئچے ویلے سے گفتگو میں نہ صرف ان الزامات کو مسترد کیا بلکہ ان کا کہنا تھا کہ الطاف حسین صرف عوام کی فلاح کے لیے کام کرنے کو کہتے ہیں۔ بابر غوری کہتے ہیں کہ ان کی صولت مرزا سے صرف ایک بار ملاقات ہوئی تھی مگر صولت کبھی ان کے گھر نہیں آیا بلکہ جرائم پیشہ سرگرمیوں میں ملوث ہونے کے باعث پارٹی سے اخراج کے بعد وہ بنکاک چلا گیا تھا۔ انہوں نے کہا:’’میں پاکستان میں ہوں اور ہر قسم کی تحقیقات کا سامنا کرنے کو تیار ہوں۔‘‘

اس تمام منظر نامے میں انتہائی دلچسپ موڑ اس وقت آیا، جب صولت مرزا کا بیان نشر ہونے کے صرف ایک گھنٹے بعد ہی ان کی سزا پر عملدرآمد تین دن کے لیے روک دیا گیا۔ اس کے بعد یہ تمام معاملہ اسکرپٹڈ لگنے لگا ہے۔ شاید اسی لیے ملک کی اکثر سیاسی جماعتوں اور رہنماؤں نے اس معاملے پر اپنا موقف تاحال محفوظ رکھا ہے۔ صرف تحریک انصاف بطور ایک جماعت اور اے این پی کے بھی صرف شاہی سید ہی اس معاملے پر کھل کر بات کر رہے ہیں۔

سینئر قانون دان خالد رانجھا کہتے ہیں کہ ’صولت مرزا جب تک زندہ ہے، اس کا بیان اہم ہے مگر کیا یہ بیان پہلے ریکارڈ ہوا تھا؟ جو کچھ اس بیان میں کہا گیا ہے، وہ بہت سنگین ہے، لہٰذا اس کی تحقیقات تو کرائی ہی جانی چاہییں۔ یہی وجہ ہے کہ صولت کی پھانسی مؤخر کی گئی ہے۔ نئی جوائنٹ انٹیروگیشن ٹیم بھی بن سکتی ہے۔ دیکھنا ہو گا، بیان میں کتنی سچائی ہے‘۔

تجزیہ کار کہتے ہیں کہ ایم کیو ایم اس سے قبل بھی اس طرح کے حالات کا سامنا کئی بار کر چکی ہے اور اس مرتبہ بھی صورت حال زیادہ مختلف نہیں۔ فرق ہے تو صرف یہ کہ صولت مرزا نے اعتراف جرم کے باوجود اپنے لیے معافی نہیںٕ مانگی لیکن معافی مل تو سکتی ہے۔ ان کی دوسری درخواست ملک کے ارباب اختیار سے تھی، جو ان کے پاس پہنچ ہی جائیں گے۔ مگر اس وقت بہت سے ذہنوں میں کئی بنیادی نوعیت کے سوالات گردش کر رہے ہیں، مثلاً یہ کہ کیا ایم کیو ایم ان حالات کا مقابلہ اپنے انداز میں کرے گی؟ کیا یہ جماعت اپنی روایت کے مطابق پہلے سے زیادہ طاقت سے ابھرے گی؟ کیا یہ معاملہ الطاف حسین کی پارٹی سے علیحدگی پر ختم ہو گا؟ اور کیا ایم کیو ایم ان حالات میں عزیز آباد کی نشست ایک بار پھر جیتنے کے قابل ہو گی؟