پاک ایران سرحدی تنازعہ حل کرنے پر اتفاقِ رائے
22 اکتوبر 2014پاکستان اور ایرانی بارڈر سیکورٹی فورسز کے حکام کے درمیان ہونے والے اس اعلیٰ سطحی اجلاس میں سرحد پار حملوں کے حوالے سے دونوں ممالک کے تحفظات کا جائزہ لیا گیا۔ اجلاس میں اس امر پر تشویش طاہر کی گئی کہ سرحد پار حملوں کے دوران قیمتی جانیں ضائع ہوئی ہیں۔ پاکستانی حکام نے ملاقات میں ایرانی سرحدی فورسز کی سرحدی حدود کی مبینہ خلاف ورزی پر ایرانی حکومت سے فوری کارروائی کا بھی مطالبہ کیا۔
ایرانی دارالحکومت تہران میں منعقدہ اس اعلیٰ سطحی اجلاس میں پاکستانی وفد کی قیادت آئی جی ایف سی بلوچستان میجر جنرل اعجاز شاہد جبکہ ایرانی وفد کی قیادت ایرانی بارڈر پولیس چیف جنرل محمد قاسم رضائی نے کی۔ اجلاس میں پاک ایران سرحدی کشیدگی اور رواں ہفتے پیش آنے والے واقعات کا تفصیلی جائزہ لیا گیا۔ پاکستانی وفد نے ایرانی سرحدی فورسز کی طرف سے پاکستانی سرحدی علاقوں پر مبینہ بلا اشتعال فائرنگ اور اس سے ہونے والے نقصانات پر شدید تحفظات کا اظہار کیا اور ایرانی حکومت پر زور دیا کہ مستقبل میں اس قسم کے واقعات کی روک تھام کے لیے ٹھوس بنیادوں پر اقدامات کیے جائیں۔
اس اجلاس میں پاک ایران سرحدی کشیدگی کے خاتمے کے لیے دو طرفہ انٹیلی جنس شیئرنگ اور سرحد کی نگرانی مزید مؤثر بنانے پر بھی اتفاق کیا گیا۔ ایرانی حکام نے پاک ایران سرحد پر سرگرم مذہبی شدت پسند گروپوں سے نمٹنے کے لیے مشترکہ حکمت عملی وضع کرنے کی تجویز پیش کی، جس پر پاکستانی حکام نےسرحد پار دہشت گردی کے خاتمے کے لیے ایران کو ہر ممکن تعاون کی یقین دہانی کرائی۔
دفاعی امور کے تجزیہ کار جنرل (ر) طلعت مسعود کے بقول پاکستان اور ایران کو دہشت گردی کے خاتمے کے لیے ایک جیسے چیلنجز کا سامنا ہے، اس لیے انہیں پہلے باہمی اعتماد کی فضا بحال کرنا ہو گی۔ ڈوئچے ویلے سےگفتگو کے دوران ان کا مزید کہنا تھا:’’میرے خیال میں پاکستان اور ایران کو آپس میں بہت تعاون کرنے کی ضرورت ہے کیونکہ دونوں کے سرحدی مقاصد ایک جیسے ہیں لیکن دیکھا یہ گیا ہے کہ جس طرح کے تعاون کی ضرورت ہے، وہ دونوں کے درمیان نہیں ہے اور ان میں بد اعتمادی موجود ہے۔ ایران نے پاکستان پر بہت الزامات عائد کئے ہیں حالانکہ ہونا یہ چاہیے کہ جتنا ممکن ہو، وہ ایک دوسرے کے ساتھ تعاون کریں تاکہ دہشت گردی کے خطرات ٹل سکیں۔ یہ مسائل آپس میں اتحاد سے حل کیے جا سکتے ہیں، الزام تراشیاں اور الگ الگ پالیسیاں اختیار کرنا ان مسائل کا حل نہیں ہے۔‘‘
سکیورٹی امور کے سینیئر تجزیہ کار پروفیسر حسن عسکری رضوی نے بھی پاک ایران سرحدی تنازعے کے حل کے لیے مشترکہ کوششوں پر زور دیا۔ ڈی ڈبلیو سے گفتگوکے دوران ان کا موقف کچھ یوں تھا:’’ایران کا جو سیستان نامی صوبہ ہے، وہاں مذہبی شدت پسندوں کی تعداد بہت زیادہ ہے۔ وہاں جو تحریکیں فعال ہیں، وہ اکثر سنی تحریکیں ہیں اور سلفی اور وہابی بنیاد پرست نظریے سے متاثر ہیں۔ ان تنظیموں کے لوگ اکثر دو طرفہ سرحد پار کرتے رہتے ہیں۔ سرحدی نگرانی اور تحفظ دونوں ممالک کی مشترکہ ذمہ داری ہے۔ جہاں پاکستانی فورسز کو اس کے لیے کردار ادا کرنے کی ضرورت ہے، وہیں ایرانی فورسز کا بھی فرض ہے کہ وہ اپنی سرحد کو محفوظ بنائیں۔‘‘
یاد رہے کہ ایران سے ملحقہ پاکستانی سرحدی حدود میں سکیورٹی فورسز کی اضافی نفری بھی تعینات کی گئی ہے مگر دونوں ممالک کے درمیان یہ سرحدی کشیدگی تاحال برقرار ہے۔ بلوچستان کے سرحدی علاقے میں بدھ کے روز بھی ایرانی حدود سے مبینہ طور پر 4 مارٹر گولے فائر کیے گئے تاہم اس واقعے میں کسی نقصان کی اطلاع موصول نہیں ہوئی ہے۔