1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

دھرنوں کے خلاف پاکستانی پارلیمنٹ کی قراردار

شکور رحیم، اسلام آباد19 ستمبر 2014

پاکستان میں جاری سیاسی بحران کے تناظرمیں ہونے والا پارلیمان کا مشترکہ اجلاس جمعے کے روز اختتام پذیر ہوگیا ہے۔ تاہم دارالحکومت اسلام آباد میں حکومت مخالف جماعتوں کا احتجاج بدستور جاری ہے۔

https://p.dw.com/p/1DFn1
تصویر: Reuters

جمعے کے روزگزشتہ تین ہفتوں سے جاری پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس کے اختتامی سیشن میں دھرنوں کے خلاف اور جمہوریت کے حق میں ایک متفقہ قرارداد بھی منظور کی گئی۔

اس موقع پر خطاب کرتے ہوئے پاکستانی وزہر اعظم نواز شریف نے کہا کہ کسی کو بھی جمہوریت پر کلہاڑا چلانے کی اجازت نہیں دے سکتے۔

انہوں نے کہا کہ سب گزشتہ پانچ ہفتوں سے دیکھ رہے ہیں کہ اسلام آباد کی شاہراہِ دستور پر کیا کچھ ہو رہا ہے؟ کس طرح کی اشتعال انگیز تقریریں کی جا رہی ہی؟ انہوں نے کہا کہ لوگوں کو مشتعل کر کے بغاوت پر اکسایا جا رہا ہے۔ شیر خوار بچوں کو کفن پہناکرجذبات بھڑکائے جا رہے ہیں اور خوبصورت سبزہ زاروں پر قبریں کھودی جا رہے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ یہ مناظر پوری قوم بھی دیکھ رہی ہے اور وہ عالمی برادری بھی جسے ہم یقین دلارہے تھے کہ پاکستان انتہا پسندی سے نکل کر ایک جدید مہذب جمہوری ریاست بن رہا ہے۔

وزیر اعظم نے کہا کہ حکومت نے بہت سے مطالبات کو تسلیم کیا اور ایف آئی آر میں اپنا اور وزیراعلیٰ پنجاب کا نام بھی شامل کیا لیکن اس کے باوجود ریڈ زون پر یلغار کی گئی۔ان کا کہنا تھا کہ حکومت نے کھلے دل سے دونوں جماعتوں کے اکثر مطالبات تسلیم کیےلیکن اس کے باوجود بھی ان کی جانب سے لچک پیدا نہیں کی گئی۔

Pakistan Unruhen in Islamabad Polizei
اسلام آباد میں جاری احتجاج کے دوران پرتشدد واقعات بھی پیش آ چکے ہیںتصویر: Reuters

وزیر اعظم نے کہا: ’’آج پھر کہہ رہا ہوں کہ وطنِ عزیز کو ایسا جنگل نہیں بننے دیں گے جہاں ’جس کی لاٹھی، اس کی بھینس‘ کا قانون چلے۔ آئین ، قانون،نظام عدل و انصاف اور مضبوط ادارے رکھنے والی کوئی ریاست اس بات کی اجازت نہیں دیتی کہ مٹھی بھر افراد پارلیمنٹ کا گھیراﺅ کرکے حکومت اور وزیر اعظم کو گھر بھیج دیں۔‘‘

پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس میں اظہارِ خیال کرتے ہوئے اپوزیشن لیڈر سید خورشید شاہ نے کہا کہ ملک کی تاریخ کا سب سے طویل پارلیمنٹ کا یہ مشترکہ اجلاس نتیجہ خیز ثابت ہوا ہے۔انہوں نے کہا عوام نے دیکھ لیا ہے کہ صرف شاہراہِ دستور کے سوا پورا ملک پرامن رہا جس سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ ملک کسی بھی انتشار میں نہیں ہے۔

پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس کے بعد بھی دھرنے جاری رہنے سے متعلق ایک سوال کے جواب میں اپوزیشن جماعت عوامی نیشنل پارٹی کے سینیٹر الیاس بلور نے بتایا : ’’پارلیمنٹ کے ساتھ دھرنے کا کوئی چکر نہیں ہے۔ دھرنا ختم کرتے ہیں تو کریں۔ نہیں کرتے تو لگے رہیں۔ دیکھیں کتنی دیر بیٹھتےہیں، ہمت ہے ان کی۔‘‘

تاہم متحدہ قومی موومنٹ کے رکن قومی اسمبلی آصف حسنین نے کہا کہ حکومت کو چاہیے کہ وہ ایسے فیصلہ کن اقدامات کرے جن سے موجودہ سیاسی ڈیڈ لاک ختم ہو اور معمولات زندگی معمول پر آسکیں۔ انہوں نے کہا: ’’کسی بھی ملک میں، صوبے میں، شہر میں اگر انارکی پیدا ہو جائے اور وہ انارکی کنٹرول نہ ہو تو اس کا اگلا قدم خانہ جنگی ہوتا ہے۔میں سمھجتا ہوں کہ اب بہت ہو گیا ۔حکومت کو چاہیے کہ وہ کچہ چیزوں پر ،مہنگائی، بے روز گاری اور انتخابی اصلاحات ہیں، یہ سب حکومت کے کنٹرول میں ہیں، ہاتھ میں ہیں،  حکومت یہ کر سکتی ہے۔‘‘