حامد کرزئی کا کزن خود کُش حملے میں ہلاک
29 جولائی 2014یہ واقعہ عید الفطر کی نماز کے فوراً بعد پیش آیا۔ بتایا گیا ہے کہ حملہ آور نے بارودی مواد اپنی پگڑی میں چھُپا رکھا تھا۔ تاحال کسی گروپ نے اس واقعے کی ذمے داری قبول نہیں کی ہے۔
جنوبی صوبے قندھار کے گورنر کے ترجمان دعویٰ خان مینا پال کے مطابق یہ واقعہ کرزئی فیملی کے آبائی ضلعے کرز میں پیش آیا، جہاں کرزئی فیملی کے گھر پر عید ملنے کے لیے آنے والے مہمانوں کا استقبال کیا جا رہا تھا۔
حشمت کرزئی افغان صدر حامد کرزئی کے انتہائی قریبی ساتھی رہے ہیں اور سابق وزیر خزانہ اشرف غنی احمد زئی کے بھی زبردست حامی تھے، جو اب حامد کرزئی کی جگہ ملک کا نیا صدر بننا چاہتے ہیں۔
کرزئی فیملی کے کسی رکن کے مارے جانے کا یہ کوئی پہلا واقعہ نہیں ہے۔ ٹھیک تین سال پہلے جولائی 2011ء میں صدر حامد کرزئی کے سوتیلے بھائی احمد ولی کرزئی کو، جو صوبائی کونسل کے طاقتور سربراہ تھے، قندھار میں اُن کے گھر پر اُن کے اپنے ہی ایک محافظ نے گولی مار کر ہلاک کر دیا تھا۔
حشمت کرزئی کے قتل کا واقعہ ملکی تاریخ کے ایک انتہائی نازک وقت پر پیش آیا ہے، جب صدارتی انتخابات کے گزشتہ مہینے منعقد ہونے والے دوسرے دور میں ڈالے جانے والے تمام آٹھ ملین ووٹوں کی پھر سے گنتی کی جا رہی ہے۔ اس سال کے آخر میں زیادہ تر غیر ملکی فوجی دستوں کے افغانستان سے چلے جانے سے پہلے ووٹوں کی گنتی کا یہ سارا عمل پُر امن انتقالِ اقتدار کے لیے بے انتہا اہمیت کا حامل ہے۔ اشرف غنی احمد زئی اور سابق وزیر خارجہ عبد اللہ عبداللہ دونوں انتخابات میں اپنی اپنی کامیابی کے دعوے کرتے ہیں اور آج کل ووٹوں کی گنتی کا عمل مکمل ہونے کا بے چینی سے انتظار کر رہے ہیں۔
حشمت خلیل کرزئی اپنے گھر پر ایک پالتو شیر رکھنے کی وجہ سے بھی مشہور تھے اور آج کل ایک نجی سکیورٹی فرم چلا رہے تھے۔ وہ اشرف غنی کی انتخابی مہم چلانے والی ٹیم کا بھی حصہ تھے اور قندھار میں اس مہم کے انچارج تھے۔ اُن کے قتل سے افغانستان میں پہلے سے نازک سیاسی حالات مزید ابتری کا شکار ہوتے دکھائی دیتے ہیں۔
کابل میں برطانوی سفیر رچرڈ اسٹیگ نے اس حملے کی مذمت کی ہے اور کرزئی خاندان کے ساتھ افسوس اور ہمدردی کا اظہار کیا ہے۔ اسٹیگ کی جانب سے ایک بیان میں کہا گیا ہے کہ عام افغان شہری ڈالے گئے ووٹوں کی بنیاد پر پُر امن انتقالِ اقتدار کے خواہاں ہیں اور حشمت کرزئی کے قاتلوں کو اس بات کی اجازت نہیں دی جانی چاہیے کہ وہ افغان عوام کی اس خواہش کو پورا ہونے سے روکیں۔
ستمبر 2011ء میں اسی طرح کے ایک حملے میں سابق افغان صدر برہان الدین ربّانی کو بھی ہلاک کر دیا گیا تھا، جو تب حکومت کی مقرر کردہ اُس کونسل کی قیادت کر رہے تھے، جسے عسکریت پسندوں کے ساتھ مصالحت کا فریضہ سونپا گیا تھا۔ تب بھی حملہ آور نے، جس نے خود کو طالبان کی جانب سے بھیجا گیا ایلچی قرار دیا تھا، کابل میں ربّانی کے گھر پر اُن سے ملتے ہوئے اپنی پگڑی میں چھُپا بم دھماکے سے اڑا دیا تھا۔