1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

تھائی فوج کے سربراہ ملک کے وزیر اعظم بن سکتے ہیں

کشور مصطفیٰ20 اگست 2014

تھائی لینڈ کے فوجی سربراہ کے ملک کے وزیر اعظم بننے کے امکانات قوی ہیں۔

https://p.dw.com/p/1CyHu
تصویر: Manan Vatsyayana/AFP/Getty Images

تھائی لینڈ کے فوجی ذرائع نے اس بارے میں آج بُدھ کو عندیہ دیا کہ اس فوج کے زیر اثر نیشنل اسمبلی کی طرف سے آرمی چیف جنرل پرایُت چان اوچا کو ملک کا وزیر اعظم منتخب کیا جا سکتا ہے۔

ذرائع نے خبر رساں ایجنسی اے ایف پی کو بتایا ہے کہ جمعرات کو تھائی لینڈ کی 179 اراکین پر مشتمل قومی اسمبلی کا اجلاس ہو گا جس میں نئے سربراہ حکومت کا انتخاب کیا جائے گا۔ انہوں نے توقع ظاہر کی ہے کہ آرمی کے سربراہ جنرل پرایُت چان اوچا واحد امیدوار ہو سکتے ہیں۔

نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر دیے گئے ایک بیان میں تھائی فوج کے ایک اہلکار نے کہا، " وزیر اعظم کے عہدے کے لیے جنرل پرایُت چان اوچا کے سوا کوئی دوسرا موزوں امیدوار موجود ہی نہیں۔"

اس فوجی اہلکار کا مزید کہنا تھا کہ جنرل پرایُت چان اوچا نے حکومت کا تختہ گرایا ہے اور تمام تر مسائل کا حل بھی انہی کی ذمہ داری بنتی ہے۔ وزیر اعظم بننے کے بعد ان کے پاس تمام تر اختیارات ہوں گے۔

Yingluck Shinawatra
ینگ لک شناوتراتصویر: picture-alliance/dpa

تھائی لینڈ کی فوج کے ایک اور اہلکار کا کہنا ہے، " جنرل پرایُت چان اوچا کو اس لیے نامزد کیا گیا ہے کہ وہ وزیر اعظم کے عہدے کے لیے نہایت موزوں شخصیت ہیں۔" اس فوجی اہلکار نے بھی نام مخفی رکھنے کی شرط پر مزید کہا کہ رائے عامہ کے مطابق جنرل پرایُت چان اوچا عوام میں بھی مقبول ہیں اور تھائی لینڈ کے باشندے نیشنل کونسل فار پیس اینڈ آرڈر این سی پی او کے کاموں کو سراہتے ہیں۔"

سابق وزیر اعظم ینگ لک شناوترا کی ایک متنازعہ عدالتی فیصلے کے بعد وزیر اعظم کے عہدے سے بر طرفی کے بعد جنرل پرایُت چان اوچا نے 22 مئی کو تھائی لینڈ کی ایک منتخب حکومت کو اقتدار سے علیحدہ کر دیا تھا۔ یہ عمل پرامن رہا تھا۔

تھائی لینڈ میں سیاسی انتشار 2006 ء میں اس وقت سے چلا آرہا ہے جب ینگ لک شناواترا کے بڑے بھائی اور ایک کروڑ پتی ٹیلیکوم ٹائی کون تھاکسن شناواترا کی حکومت کا تختہ الٹا تھا۔ تھائی فوجی حکمرانوں کا کہنا ہے کہ وہ ملک میں آئندہ برس کے عام انتخابات سے پہلے ملک میں سیاسی اصلاحات متعارف کروانا چاہتے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ اقتدار کو ہاتھ میں لینا ان کے لیے اس لیے ناگزیر تھا کیونکہ ملک قریب ایک ماہ سے سیاسی بحران کا شکار تھا اور اُس سے متعلق سڑکوں پر ہونے والے تشدد کے واقعات میں 30 افراد ہلاک ہو چکے تھے اور حکومت مفلوج ہو کر رہ گئی تھی۔