بالی وُڈ کے دیش میں پاکستانی ڈراموں کا چرچا
25 فروری 2015شمالی بھارتی قصبے ماتھورا کی دیپتی شرما ہر شام ٹھیک آٹھ بجے اپنا ٹیلی وژن آن کر کہ اُس کے آگے یوں بیٹھ جاتی ہے جیسے کہ وہ ٹی وی اسکرین نہیں بلکہ کھڑکی سے جھانک کر پاکستان کا نظارہ کر رہی ہو۔ وہ پاکستان، جس کے ساتھ اُس کے ملک کی تین جنگیں ہو چُکی ہیں اور جسے اُس کے وطن کا روایتی دشمن بھی سمجھا جاتا ہے۔
’زندگی‘ بھارتی شائقین کی ایک نئی امنگ
ہندی تفریحی چینل ’زندگی‘ کا آغاز جون 2014 ء میں ہوا تھا۔ اس چینل پر سارا دن پاکستانی ڈرامہ سیریل نشر کیے جاتے ہیں۔ 55 سالہ شرما اس چینل کی نئی فین ہے۔ شرما اسکول ٹیچر ہے اور اسے پاکستانی ڈراموں میں خواتین کی پوشاک بہت وجیہ اور جاذب نظر لگتی ہے اور اُردو زبان اُسے بہت شائستہ اور اُس کے کانوں کو بہت بھلی لگتی ہے ویسے ہی جیسے بھارت میں ہندی بولی جاتی ہے۔ شرما پاکستانی ڈراموں میں دکھائی جانے والی خاندانی کہانیوں سے سب سے زیادہ متاثر ہے۔ خاص طور سے ایسے ڈرامے جن میں شادیوں کو خراب ہونے سے بچانے اور معاشرے کے طبقاتی اور پُرانی اور نئی نسل کے مابین تصادم سے متعلق موضوعات شرما کی گہری دلچسپی کا باعث ہیں۔
تاریخ کی تلخ حقیقت
بہت سے بھارتی شائقین کے لیے پاکستانی ڈرامے اچنبے کا باعث بھی بنتے ہیں کیونکہ بھارت میں ایک عام رائے یہ پائی جاتی تھی کہ پاکستان میں بننے والے ڈرامے اور فلمیں بھارت کے خلاف پروپیگینڈا کا ایک ذریعہ ہوتے ہیں۔ گپتا پال کہتی ہیں کہ انہیں پاکستانی معاشرے کے بارے میں بالکل آگاہی نہیں تھی۔ پاکستان کے بارے میں ان کا ایک تصور تھا وہ پاکستانی ڈرامے دیکھنے کے بعد کسی حد تک صحیح اور کچھ حد تک غلط بھی ثابت ہوا۔ وہ کہتی ہیں،" میں ان ڈراموں میں بھارت مخالف مواد کی توقع کر رہی تھی۔ مجھے ایسا کچھ نظر نہیں آیا۔ ہو سکتا ہے کہ اس طرح کے ڈراموں کو بھارتی چینل نے نشر کرنے کے لیے نہیں چنا ہو"۔
پاکستانی پنجاب کی سرحد سے قریب 30 کلو میٹر کے فاصلے پر قائم بھارتی پنجاب کے شہر امرتسر سے تعلق رکھنے والا گورشاران سنگھ اور اُس کی بیوی ستندر کور ہر روز پاکستانی ڈرامہ سیریل دیکھتے ہیں۔ وہ کہتے ہیں، " یہ سب کچھ بہت ہی شناسا لگتا ہے" ۔ سنگھ کا کہنا ہے کہ اُس کی فیملی 1947ء میں تقسیم ہند کے بعد بھارت اور پاکستان دو علیحدہ ریاستوں کے قیام کے وقت لاہور سے نقل مکانی کر کے امرتسر آ گئی تھی۔ پارٹیشن خونی واقعات سے بھرپور ہے جس وقت مسلم اکثریت نے پاکستان کا رُخ کیا اور ہندو اور سکھ بھارت چلے گئے اُس وقت بے حساب خون بہا۔ تاریخ کا وہ سیاہ باب دونوں طرف کے عوام کے اذہان میں موجود ہے تب بھی وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ ثقافتی، ادبی اور علمی وفود کے تبادلے سے سرحد کے دونوں طرف کے لوگوں کی سوچ میں مثبت تبدیلی رونما ہوئی ہے۔
کامیابی کی نشانیاں
بھارت میں اب بھی ایک طبقہ ایسا ہے جو اپنے اُن ہم وطنوں سے اتفاق نہیں رکھتا جو پاکستانی ڈرامے بڑے شوق سے دیکھتے ہیں۔ پاکستانی ڈراموں کی شوقین شرما کہتی ہیں، "میرے اکثر رشتہ دار مجھ سے پوچھتے ہیں کہ میں پاکستانی ڈراموں کیوں دیکھتی ہوں؟ کیا بھارتی سیریل معیاری نہیں ہوتے ہیں؟ ایک طرح سے مجھے غدار سمجھا جاتا ہے" ۔
شرما کے مطابق بہت سے بھارتی باشندوں کو پاکستانی ادب، فیشن اور دیگر چیزوں کا پتا ہی نہیں ہے وہ زیادہ سے زیادہ پاکستانی کرکٹ کو جانتے ہیں۔ بھارتی ٹی وی چینل ’زندگی‘ کی بدولت بھارت کے شہروں، قصبوں، گلی کوچوں اور چھوٹے بڑی مارکیٹس کی دکانوں میں ’ پالاسو پینٹس‘ اور بہت لمبی قمیض والے ڈریسز بکتے نظر آتے ہیں، کیونکہ یہ لباس پاکستانی اداکارائیں پہنتی ہیں۔ کامیابی کی اس سے بڑی نشانی اور کیا ہوگی؟۔