پاکستان میں غیرملکی ڈراموں کے خلاف احتجاج جاری
21 دسمبر 2012کچھ عرصہ قبل پاکستان میں ایک ٹی وی چینل کے ذریعے غیر ملکی ڈرامے اردو ڈبنگ کے ساتھ پیش کیے جانا شروع ہوئے۔ ان میں سے ترکی کے ایک مقبول ڈرامے 'عشق ممنوع‘ کو بہت پسند کیا گیا۔ اس کے بعد پاکستان کے بعض معروف ٹی وی چینلز نے مقامی ڈرامے روک کر اردو ڈبنگ کے ساتھ غیر ملکی ڈرامے پرائم ٹائم پر نشر کرنا شروع کر دیے۔ اس پر ڈرامہ پروڈکشن سے وابستہ تفریحی صنعت کے مقامی افراد نے احتجاج شروع کر دیا۔
ڈی ڈبلیو سے گفتگو کرتے ہوئے یونائیٹڈ پروڈیوسرز ایسوسی ایشن کے چیئرمین راشد خواجہ نے بتایا کہ پاکستان میں ٹی وی چینلز کو اپنے ایئر ٹائم میں سے روزانہ صرف دس فیصد دورانیے تک کے لیے غیر ملکی پروگرام دکھانے کی اجازت ہے۔ راشد خواجہ نے کہا، ’اس حساب سے وہ روزانہ 24 گھنٹوں میں سے صرف دو گھنٹے اور 24 منٹ تک غیر ملکی پروگرام اور ڈرامے دکھا سکتے ہیں۔ پاکستان میں پرائم ٹائم چار گھنٹوں پر محیط ہوتا ہے۔ غیرملکی ڈراموں اور ان کو ملنے والے اشتہارات کے بعد پاکستانی ڈراموں کے لیے صرف آدھ گھنٹہ بچتا ہے۔ اس لیے مقامی ڈرامہ انڈسٹری کو بچانے کے لیے اس قانون کو فوری طور پر تبدیل کیا جانا چاہیے‘۔
معروف ڈرامہ نگار اور پروڈیوسر آصف علی پوتا نے بتایا کہ دہشت گردی کے مارے ملک پاکستان میں فلم انڈسٹری پہلے ہی تباہ ہو چکی ہے۔ اگر مقامی چینلز پر غیر ملکی ڈرامے چلا کر مقامی ڈرامہ انڈسٹری کو بھی تباہ کر دیا گیا تو پھر معاشرہ مزید گھٹن کا شکار ہو جائے گا۔ ان کے بقول آج کل جنگیں ہتھیاروں سے نہیں بلکہ میڈیا کے ذریعے لڑی جا رہی ہیں۔ گھر گھر بھارتی فلموں کے دیکھے جانے سے معاشرے میں بھارتی رسومات رواج پا رہی ہیں۔ قم قم کی ساڑھیوں اور ماتھے کی بندیا کے بعد اب بعض لوگ تو نکاح کے موقع پر بچوں کا دل رکھنے کے لیے 'سات پھیروں‘ کی خواہش کا اظہار بھی کرتے ہیں۔ آصف علی پوتا پوچھتے ہیں کہ یہ کیسا مذاق ہے کہ بھارت میں پاکستانی چینلز دکھائے جانے پر پابندی ہے اور پاکستان میں بھارتی پروگرام دکھائے جا رہے ہیں۔
پاکستانی ڈراموں کی ممتاز فنکارہ لیلٰی زبیری نے ڈی ڈبلیو کو بتایا کہ اوریجنل پاکستانی ڈراموں کے بجائے غیرملکی ڈرامے دکھانے سے ملکی ڈرامہ انڈسٹری کو اقتصادی نقصان ہو گا اور اس سے بے روزگاری بھی بڑھے گی۔ ان کے مطابق غیر ملکی ڈرامے نہ تو اردو ڈبنگ کے ساتھ دکھائے جانے چاہییں اور نہ ہی انہیں پرائم ٹائم کے دوران دکھایا جانا چاہیے۔ ان کے بقول پاکستان کی ڈرامہ انڈسٹری کو تحفظ دینے کے لیے پرانے غیر ملکی ڈراموں پر ٹیکس عائد کیا جانا چاہیے۔
معروف ڈرامہ نویس اصغر ندیم سید کی رائے میں اصولی طور پر پاکستان کی ڈرامہ انڈسٹری سے وابستہ افراد کا احتجاج جائز تو ہے لیکن یہ بھی دیکھا جانا چاہیے کہ پاکستانی ڈرامے کو برباد کرنے والے بھی تو یہی مقامی لوگ ہیں۔
پاکستان ٹیلی وژن کے ریکارڈ ساز ڈرامے 'افسر بیکار خاص‘ کے مصنف اورمعروف کالم نویس یاسر پیرزادہ نے ڈوئچے ویلے کو بتایا کہ احتجاج کرنے والوں کا موقف اصولی، قانونی اور اخلاقی طور پر بہت کمزور ہے۔ ان کے خیال میں اپنے ڈراموں کا معیار بہتر کرنے کے بجائے دوسروں پر پابندیاں لگانے کی بات کرنا مناسب نہیں ہے، ’جب ایک ٹی وی چینل کو دو ڈھائی لاکھ روپے میں ایک معیاری غیر ملکی ڈرامہ ملے گا تو وہ پانچ لاکھ روپے میں ایک غیر معیاری مقامی ڈرامہ کیوں خریدے گا؟‘
یاسر پیرزادہ نے بتایا کہ احتجاج کرنے والوں سے پوچھا جانا چاہیے کہ کیا یہ درست نہیں کہ مقامی ڈرامے بنانے والوں نے پاکستانی ثقافت سے متصادم قابل اعتراض ڈرامے بنائے؟ کیا ملک کے چار بڑے پروڈکشن ہاؤسز نے تمام اہم اداکاروں کی بکنگ کر کے انڈسٹری کو یرغمال نہیں بنا رکھا اور کیا انہوں نے اپنے ناجائز ہتھکنڈوں سے نئے پروڈیوسروں کے لیے انڈسٹری کے دروازے عملی طور پر بند نہیں کر دیے؟
یاسر پیرزادہ کے بقول ایک وقت میں پاکستانی ٹی وی چینلز پر قریب 35 ڈرامے چلتے ہیں اور صرف چار غیر ملکی ڈرامے نشر ہونے سے انڈسٹری بند کیسے ہو جائے گی؟
رپورٹ: تنویر شہزاد، لاہور
ادارت: مقبول ملک