1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

’اسلامک اسٹیٹ‘ کے جرمن خودکُش حملہ آور

عابد حسین18 ستمبر 2014

ایک جرمن ریسرچ ٹیم کی رپورٹ کے مطابق عراق اور شام میں کیے گئے مختلف خودکش حملوں میں جرمن بمبار شریک ہو چکے ہیں۔ رپورٹ کے مطابق ایسے حملہ آوروں کی تعداد نو ہے اور اِس میں اضافے کا امکان ہے۔

https://p.dw.com/p/1DEtV
تصویر: REUTERS/SANA/Handout via Reuters

جرمن خود کُش حملہ آوروں کے بارے میں رپورٹ اخبار ’زُوڈ ڈوئچے سائٹنگ‘ کے صحافیوں نے مرتب کی ہے۔ اِس ٹیم میں جرمن براڈکاسٹنگ اداروں این ڈی آر (NDR) اور ڈبلیو ڈی آر (WDR)کے اراکین بھی شامل تھے۔ مبصرین کے مطابق اِس رپورٹ سے جرمن حکومت کو حیرانی ہونے کے ساتھ ساتھ اب چوکنا ہونے کی ضرورت ہے۔ رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ عراق اور شام میں فعال انتہا پسند جہادی تنظیم اسلامک اسٹیٹ کی جانب سے کیے گئے کم از کم پانچ خود کُش حملوں میں جرمن بمبار یقینی طور پر شریک تھے۔ جبکہ تین یا چار دوسرے حملوں میں شامل بمباروں کی شناخت کا تعین باقی ہے لیکن اُن کے جرمن ہونے کا شُبہ ظاہر کیا گیا ہے۔

بُدھ کے روز شائع ہونے والی رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ جرمن بمباروں کے تمام خود کش حملے رواں برس ہوئے ہیں۔ ان میں دارالحکومت بغداد کے علاوہ خاص طور پر شمالی عراق میں کرد علاقوں کو ٹارگٹ کیا گیا تھا۔ مختلف یورپی ملکوں کی خفیہ اداروں کی رپورٹوں کے حوالے سے بتایا گیا ہے کہ مارچ سے خود کُش حملوں میں یورپی اقوام سے تعلق رکھنے والے بمباروں کی تعداد جرمن حملہ آوروں کی تعداد سے چار گنا ہے۔ زُوڈ ڈوئچے سائٹنگ کی رپورٹ پر تبصرہ کرتے ہوئے جرمن وزیر داخلہ تھوماس ڈے میزيئر کا کہنا تھا کہ برلن حکومت عراق کے لیے جرمنی سے ’موت‘ ایکسپورٹ کرنےکے حق میں قطعاً نہیں ہے اور دہشگردوں کی یہ ایکسپورٹ ضمیر کے منافی فعل ہے اور اس کا روکنا ازحد ضروری ہے۔

Irak Kirkuk Selbstmordanschlag
دارالحکومت بغداد کے علاوہ خاص طور پر شمالی عراق میں کرد علاقوں کو ٹارگٹ کیا گیا تھاتصویر: Reuters

عراق میں جرمن خودکش حملہ آوروں کے حوالے سےبتایا گیا کہ ایک مغربی جرمن شہر اینے پیٹال (Ennepetal) سے تعلق رکھنے والا اکیس برس کا احمد سی ہے۔ اِس نوجوان کے حوالے سے خفیہ اداروں کی مختلف رپورٹوں اور قریبی افراد کے انٹرویوز کے ذریعے اُس کے ذہنی رجحان کا بھی پتہ چلایا گیا تھا۔ احمد سی کا تعلق ترک خاندان سے ہے۔ ریسرچ کے مطابق ایک سال قبل احمد سی نے جرمنی کی سلفی تحریک سے روابط استوار کیے اور پھر وہ رواں برس جون میں ترکی روانہ ہو گیا، جہاں سے اُسے اسلامک اسٹیٹ میں شامل ہونے میں آسانی ملی۔ اُنیس جولائی کو بغداد میں ہونے والے ایک خود کُش حملے میں 54 افراد کی ہلاکت ہوئی تھی اور اِس حملے کا بمبار احمد سی تھا۔ اُسی وقت اُس کے خاندان کو ایک مختصر ٹیلیفون کال کے ذریعے اُس کی ہلاکت کا بتایا گیا تھا۔

دریں اثنا جرمن حکومت نے ایسی تمام عملی سرگرمیوں کو ممنوع قرار دے دیا ہے جو اسلامک اسٹیٹ کی حمایت سے جڑی ہوں۔ ایسی اطلاعات ہیں کہ قریب چار سو کے قریب جرمن شہریوں نے عراق اور شام میں متحرک جہادی گروپوں میں شمولیت اختیار کر لی ہے۔ رپورٹ کے مطابق یہ اِس بات کا مظہر ہے کہ جرمن جہادی گروپ کس حد تک انتہا پسند جہادی گروپوں کے ہمدرد ہیں۔ اب جرمن وزیر داخلہ کے بیان کی روشنی میں موت کے ایکسپورٹ کے بہاؤ کو جرمنی سے روکنا حکومتی ترجیحات میں شامل ہے۔ جرمنی کے وفاقی دفتر برائے تحفظِ دستور کے سربراہ ہانس گیورگ ماسن کا کہنا ہے کہ جرمنی کی سلامتی کی صورت حال پر نظر رکھی جا رہی ہے کیونکہ دوسرے ملکوں سے تربیت حاصل کرنے والے کئی جہادی واپس لوٹ چکے ہیں اور اُن سے حملوں کا خطرہ ہو سکتا ہے۔ جرمنی میں داخلی سلامتی کی ذمہ داری وفاقی دفتر برائے تحفظِ دستور کے پاس ہے۔

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں

اس موضوع سے متعلق مزید