1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

یوکرائن میں روسی فوج بھیجنا خارج از امکان نہیں، پوٹن

مقبول ملک17 اپریل 2014

مشرقی یوکرائن میں نیشنل گارڈز کے اڈے پر حملے میں تین روس نواز علیحدگی پسندوں کی ہلاکت کے پس منظر میں روسی صدر پوٹن نے کہا ہےکہ یوکرائن میں روسی فوج بھیجنا خارج از امکان نہیں تاہم انہیں امید ہےکہ اس کی ضرورت نہیں پڑے گی۔

https://p.dw.com/p/1BkUI
تصویر: picture-alliance/dpa

دوسری طرف یوکرائن کے بحران کے حل کی کوششوں کے سلسلے میں آج جمعرات کوجنیوا میں یورپی یونین، امریکا، روس اور یوکرائن کے مابین مذاکرات ہو رہے ہیں، جن کے بارے میں یوکرائن کے عبوری وزیر اعظم نے قدرے کم امیدی کا اظہار کیا ہے۔

مشرقی یوکرائن میں بحیرہء اسود کے کنارے واقع ایک شہر میں یوکرائن کے نیشنل گارڈز کے ایک اڈے پر سینکڑوں مسلح علیحدگی پسندوں نے بدھ اور جمعرات کی درمیانی شب جو حملہ کیا، اس میں تین روس نواز باغی ہلاک اور 13 زخمی ہوئے۔

کییف حکومت کے مطابق بندرگاہی شہر ماریُوپول میں نیشنل گارڈز کے ہیڈ کوارٹرز پر اس حملے کے دوران باغیوں نے خود کار ہتھیار اور گرینیڈز بھی استعمال کیے۔ یہ واقعہ یوکرائن کے تنازعے میں اب تک کا سب سے خونریز واقعہ ثابت ہوا۔ یوکرائن حکومت کے مطابق حملہ آور نقاب پوش ملیشیا ارکان تھے۔

پوٹن کی بالواسطہ فوجی دھمکی

آج ہی روسی صدر ولادیمیر پوٹن نے ٹیلی وژن پر دکھائے جانے والے، عوام سے اپنے سالانہ ’کال اِن‘ خطاب میں کہا کہ یہ الزام بے بنیاد ہے کہ روسی اسپیشل فورسز مشرقی یوکرائن میں بدامنی کو ہوا دے رہی ہیں۔ اس پروگرام میں روسی شہری صدر کو براہ راست فون کر سکتے تھے۔ زیادہ تر سوالات یوکرائن کے بارے میں پوچھے گئے۔

جواباﹰ صدر پوٹن کی سوچ اور لہجہ بڑے واضح تھے۔ خبر ایجنسی روئٹرز کے مطابق یوکرائن کا بحران سرد جنگ کے بعد سے مشرق اور مغرب کے مابین پیدا ہونے والا آج تک کا شدید ترین بحران بن چکا ہے۔ اس پس منظر میں روسی صدر پوٹن نے کہا کہ یوکرائن کی حکومت ملک کے مشرق میں بدامنی کو کچلنے کے لیے فوج استعمال کر کے شدید نوعیت کے جرم کی مرتکب ہو رہی ہے۔

Ukraine Krise Putin TV Auftritt 17.04.2014
روسی صدر پوٹن جمعرات کے روز ٹیلی وژن پر سالانہ ’کال اِن‘ پرواگرام میںتصویر: Reuters/Alexei Nikolskyi/RIA Novosti

ولادیمیر پوٹن کے بقول روس کے لیے یوکرائن میں اپنے فوجی دستے بھیجنا خارج از امکان نہیں ہے لیکن وہ امید کرتے ہیں کہ انہیں ایسا نہیں کرنا پڑے گا۔ پوٹن نے ساتھ ہی یہ امید بھی ظاہر کی کہ یوکرائن کا بحران سفارت کاری سے حل کر لیا جائے گا۔

مختلف خبر ایجنسیوں کے مطابق سیاسی طور پر صدر پوٹن نے روسی فوج کے حوالے سے آج جو بات کہی، وہ ان کی طرف سے یوکرائن میں فوجی مداخلت کی بالواسطہ دھمکی کے سوا کچھ بھی نہیں۔ اس خطاب میں پوٹن نے جہاں کریمیا کی روس میں شمولیت کا دفاع کیا، وہیں پر انہوں نے یورپ کو کھل کر یہ یاد دلانے کی کوشش بھی کی کہ یورپ روسی گیس پر انحصار کرتا ہے۔

جنیوا میں چار فریقی مذاکرات

خبر ایجنسی روئٹرز کے مطابق جنیوا میں آج ہونے والی بات چیت کے لیے روس، یوکرائن، امریکا اور یورپی یونین کے نمائندے سوئٹزرلینڈ کے اس شہر پہنچے تو اس بات کا امکان شروع سے ہی کم تھا کہ کوئی بڑی پیش رفت ہو سکتی ہے۔

امریکا اور یورپی ملکوں نے روس کو دھمکی دے رکھی ہے کہ وہ ظاہر کرے کہ یوکرائن میں کشیدگی کم کرنے کے لیے ماسکو اپنا کردار ادا کر رہا ہے۔ دوسری صورت میں نتیجہ روس کے خلاف مزید پابندیاں ہوں گی۔

جنیوا مذاکرات یوکرائن کے بحران کے حل کے لیے کتنے مددگار ثابت ہو سکتے ہیں، اس بارے میں یوکرائن کے عبوری وزیر اعظم یاٹسینییُک کا یہ بیان کافی ہے کہ انہیں اس بات چیت سے زیادہ امید نہیں ہے۔ ان کے بقول روس 25 مئی کے لیے طے یوکرائن کے صدارتی الیکشن کو سبوتاژ کرنا چاہتا ہے۔

گیس کے بارے میں روسی، یورپی مذاکرات

اسی دوران برسلز سے موصولہ رپورٹوں کے مطابق یورپی یونین نے روسی صدر پوٹن کو بتا دیا ہے کہ وہ یورپ کے لیے روسی گیس کی فراہمی کو یقینی بنانے کے لیے ماسکو اور کییف حکومتوں کے ساتھ مذاکرات پر تیار ہیں۔ یورپی کمیشن کے مطابق اس بارے میں سہ فریقی بات چیت کی تجویز روسی صدر پوٹن نے اپنے ایک خط میں گزشتہ ہفتے دی تھی، جسے یورپی کمیشن کے صدر باروسو نے قبول کر لیا ہے۔

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں

اس موضوع سے متعلق مزید