1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

یوکرائن خانہ جنگی کے دہانے پر آ گیا ہے، پوٹن کا میرکل کو انتباہ

عاطف بلوچ16 اپریل 2014

روسی صدر ولادیمیر پوٹن نے جرمن چانسلر انگیلا میرکل کو خبردار کیا ہے کہ کییف حکومت کی طرف سے مشرقی علاقوں میں فوج روانہ کرنے سے یہ سابقہ سوویت جمہوریہ خانہ جنگی کے دہانے پر پہنچ گئی ہے۔

https://p.dw.com/p/1BjGE
تصویر: picture-alliance/ITAR-TASS

کریملن کی طرف سے بدھ کو جاری کیے گئے ایک بیان میں کہا گیا ہے کہ روسی صدر پوٹن نے جرمن چانسلر کے ساتھ ٹیلی فونک گفتگو میں یوکرائن میں بڑھتے ہوئے تناؤ پر اپنے تحفظات کا اظہار کیا ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ یوکرائن کے مشرقی علاقوں میں مظاہرین کے خلاف فوجی کارروائی ’ایک غیر آئینی اقدام‘ ہو گا۔ پوٹن کے بقول مظاہرین کے خلاف طاقت کا استعمال ناقابل قبول ہو گا۔

Merkel und Putin Archiv 21.06.2013 St. Petersburg
روسی صدر پوٹن نے جرمن چانسلر کے ساتھ ٹیلی فونک گفتگو میں یوکرائن میں بڑھتے ہوئے تناؤ پر اپنے تحفظات کا اظہار کیا ہےتصویر: Reuters

کریملن کے مطابق البتہ دونوں رہنماؤں نے اس کشیدگی کو کم کرنے کے لیے جمعرات سے شروع ہونے والے مذاکرات کو اہم قرار دیا ہے۔ ان مذاکرات میں یورپی یونین، روس، امریکا اور یوکرائن کے نمائندے پہلی مرتبہ براہ راست ملیں گے تاکہ یوکرائن کے بحران کا پر امن حل تلاش کرنے کی کوشش کی جا سکے۔ تاہم روسی وزیر خارجہ سرگئی لاوروف نے کہا ہے کہ اگر کییف حکومت روس نواز علحیدگی پسندوں کے خلاف فوجی کارروائی کرتی ہے تو یہ مذاکرات متاثر ہو سکتے ہیں۔

قبل ازیں یوکرائن نے مشرقی علاقوں میں روس نواز علحیدگی پسندوں کے خلاف انسداد دہشت گردی کی کارروائی کے تحت سلاویانسک میں ٹینک تعینات کر دیے۔ امریکی حمایت یافتہ کییف حکومت کے اس عمل کی ماسکو نے شدید مذمت کی ہے۔ خبر رساں ادارے اے ایف پی نے کییف سے موصولہ رپورٹوں کے حوالے سے بتایا ہے کہ روس سے ملحقہ سرحدی علاقوں میں بیس ٹینک اور بکتربند گاڑیاں روانہ کرنے کا مقصد وہاں سرکاری عمارتوں پر قابض روس نواز جنگجوؤں سے نمٹنا ہے۔

یوکرائن کے مشرقی علاقوں کے دس شہروں میں یہ جنگجو حکومتی رٹ کو چیلنج کیے ہوئے ہیں۔ یوکرائنی فوج نے سلاویانسک کی طرف جانے والی شاہراہوں پر چیک پوائنٹ قائم کر دیے ہیں اور اس شہر کا رخ کرنے والوں کی تلاشی لی جا رہی ہے۔ اسی اثناء جنگی ہیلی کاپٹرز اور لڑاکا طیارے بھی اس شہر کے اوپر پرواز کر رہے ہیں۔

ایسی اطلاعات بھی ہیں کہ اس شہر کے باسی ایک لحاظ سے ان جنگجوؤں کے ہاتھوں یرغمالی بنے ہوئے ہیں۔ یہ امر اہم ہے کہ کییف حکومت نے روس نواز اس ملیشیا کو ہتھیار پھینکنے کا الٹی میٹم دیتے ہوئے اعلان کیا تھا کہ اگر صورتحال معمول پر نہیں آتی تو ایسے عناصر سے نمٹنے کے لیے انسداد دہشت گردی کے لیے ایک خصوصی آپریشن شروع کیا جائے گا۔ مشرقی علاقوں میں فوج کی تعیناتی اس آپریشن کی تیاری کا حصہ ہے۔

سلاویانسک میں اچانک ٹینکوں کی تعیناتی پر تبصرہ کرتے ہوئے یوکرائنی سکیورٹی سروس (ایس بی یو) کے سربراہ جنرل واسل کروٹوف نے خبردار کیا ہے، ’’ انہیں (روس نواز جنگجوؤں) کو خبردار کرنا ضروری ہے کہ اگر وہ ہتھیار نہیں پھیکنتے تو انہیں تباہ کر دیا جائے گا۔‘‘ انہوں نے اصرار کیا کہ وہاں فعال جنگجوؤں کو روس کی طرف سے ہدایات دی جا رہی ہیں۔

دوسری طرف ماسکو حکومت نے یوکرائن کی طرف سے اپنے ہی ملک کے شہریوں کے خلاف ایسی عسکری طاقت کے ممکنہ استعمال کی شدید مذمت کی ہے۔ تاہم امریکا نے کہا ہے کہ یوکرائن کے موجودہ حالات کے تناظر میں سلامتی کے خدشات دور کرنے کے لیے کییف نے درست حکمت عملی ترتیب دی ہے۔

15.04.2014 DW online Karte Ukraine Russland Donetsk eng
یوکرائن کے مشرقی علاقوں میں روسی نسل زیادہ آبادی میں ہے

وائٹ ہاؤس کی طرف سے جاری کیے گئے ایک بیان کے مطابق یوکرائن کے مشرقی علاقوں میں لا اینڈ آرڈر کو درپیش خطرات کے تناظر میں روس نواز جنگجوؤں کے خلاف عسکری کارروائی درست ہے۔ وائٹ ہاؤس کے ترجمان جے کارنی نے مزید کہا کہ یوکرائن میں بدامنی کے لیے روسی کردار کے باعث امریکا ماسکو پر مزید پابندیاں عائد کرنے پر غور کر رہا ہے۔ تاہم انہوں نے ایسی خبروں کو مسترد کیا کہ صدر باراک اوباما کی انتظامیہ یوکرائن کو عسکری مدد فراہم کرنے پر غور کر رہی ہے۔ خیال رہے کہ روسی صدر ولادیمیر پوٹن ایسے الزامات مسترد کرتے ہیں کہ روس یوکرائن میں بد امنی میں کوئی کردار ادا کر رہا ہے۔

ادھر روسی وزیر اعظم دمتری میدیدیف نے بھی خبردار کیا ہے کہ سابقہ سوویت جمہوریہ خانہ جنگی کے دہانے پر پہنچ چکی ہے۔ انہوں نے کییف کی حکومت پر زور دیا ہے کہ وہ اس بحران کے خاتمے کے لیے عسکری طاقت کے بجائے مذاکرات کا راستہ اختیار کرے۔ اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل بان کی مون نے اس صورتحال پر شدید تحفظات کا اظہار کرتے ہوئے فریقین پر زور دیا ہے کہ اس تنازعے کا پرامن حل تلاش کرنے کی طرف توجہ مرکوز کی جائے۔