1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

یورو زون قرض بحران کے یورپی سیاست پر سایے

25 اپریل 2012

یورو زون میں کچھ عرصے سے جاری قرض بحران کے سایے اب مختلف ملکوں کی سیاست پر بھی پھیلنا شروع ہو گئے ہیں۔ حالیہ کچھ عرصے میں یونان، اٹلی اور اسپین کی حکومتوں میں تبدیلی کی بڑی وجہ ان کی انفرادی معیشتوں پر قرضوں کا بوجھ تھا۔

https://p.dw.com/p/14kr0
تصویر: dapd

یورو زون کے رکن ملک یونان کے سابق وزیر اعظم جارج پاپاندریو اسی دباؤ کا شکار ہو کر نومبر 2011 ء میں اپنے عہدے سے مستعفی ہو گئے تھے۔ انہوں نے اس عہدے کی باگ ڈور لوکاس پاپا دیموس کے سپرد کر دی تھی جو کہ اقتصادی ماہر ہیں اور یورپی مرکزی بینک کے صدر بھی رہ چکے ہیں۔ وہ ملک کے اقتصادی امور کو سدھارنے اور معیشت کو درست سمت میں گامزن کرنے کے لیے سخت بچتی اقدامات اٹھا رہے ہیں۔

اسی طرح اسپین میں 2011 کے عام انتخابات قبل از وقت منعقد کیے گئے جس میں وزیر اعظم رودریگیز سپاتیرو کی سوشلسٹ ورکز پارٹی کو انتہائی بری طرح شکست کا سامنا کرنا پڑا اور وہ صرف اٹھائیس فیصد ووٹ حاصل کرنے میں ہی کامیاب ہو سکی۔ ان کی جگہ ماریانو راخوئے وزیر اعظم بنے ہیں جن کا تعلق پیپلز پارٹی سے ہے۔

Brüssel EURO-Sondergipfel 21. Juli 2011
اطالوی وزیر اعظم سلویو برلیسکونی کو 2011ء میں اپنے عہدے سے استعفٰی دینا پڑا تھاتصویر: picture alliance/dpa

2010ء میں اٹلی دنیا کی ساتویں بڑی معیشت تھی مگر وہ 1.9 ٹرلین یورو کے قرض تلے دبی ہوئی ہے۔ اٹلی کے آزمودہ کار وزیر اعظم سلویو برلیسکونی کو معیشت میں درکار ضروری اصلا‌حات لانے میں ناکامی اور بہت سے اسکینڈلوں کے باعث وقت سے پہلے ہی اپنا عہدہ چھوڑنا پڑا اور نومبر 2011ء میں اٹلی میں ٹیکنو کریٹس پر مشتمل ایک حکومت قائم ہوئی جس کے سربراہ سابق یورپی کمشنر ماریو مونٹی ہیں۔ ماریو مونٹی ملک کی معیشت کو بہتر بنانے کے لیے بچتی اقدامات کر رہے ہیں جن میں ٹیکسوں میں اضافہ، پینشن اصلاحات اور ٹیکس چوری کی روک تھام شامل ہیں۔ یہ اصلاحات عوام میں غیر مقبول ہیں کیونکہ انہیں اِن مشکل حالات میں زیادہ مسائل کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔

یورو زون کے ملکوں میں کساد بازاری کے باعث اقتصادی مشکلات کے ردعمل میں رائے دہندگان نے ایسے سیاست دانوں اور حلقوں کو بھی اہمیت دینا شروع کر دی ہے جو قوم پرستی اور دائیں بازو کی سیاست کر رہے ہیں۔ اس کی ایک مثال فرانس کے حالیہ انتخابات ہیں جن میں انتہائی دائیں بازو کی شعلہ بیان سیاست دان میرین لی پین نے اٹھارہ فیصد کے قریب ووٹ حاصل کر کے سب کو ورطہء حیرت میں ڈال دیا۔ لی پین ملک میں تارکین وطن کی آمد اور خاص طور پر مسلمانوں کے خلاف سخت رویہ رکھتی ہیں۔ انہوں نے کچھ عرصہ قبل پیرس میں بیشتر جگہ دستیاب حلال گوشت پر بھی تنقید کی تھی۔

گزشتہ اتوار کو منعقدہ انتخابات کے بعد اپنے حامیوںسے خطاب کرتے ہوئے میرین لی پین نے کہا: ’میں چاہتی ہوں کہ آپ اس چیز کو جاری رکھیں اور حالات کو دیکھیں۔ مجھے یقین ہے کہ میں فرانسیسی عوام کو اُن کی آزادی، خود مختاری، وقار اور احترام واپس لوٹاؤں گی۔‘

Marine Le Pen
فرانس میں انتہائی دائیں بازو کی سیاستدان میرین لی پین نے غیر معمولی تعداد میں ووٹ حاصل کیے ہیںتصویر: AP

دائیں بازو کے اعتدال پسند صدر نکولا سارکوزی نے بھی اب صدارتی انتخابات کے دوسرے مرحلے میں کامیابی حاصل کرنے کے لیے انتہائی دائیں بازو کے اُن ووٹروں کی طرف دیکھنا شروع کر دیا ہے جنہوں نے میرین لی پین کو ووٹ دیے تھے۔ الیکشن سے قبل سارکوزی خود بھی ایک بار کہہ چکے ہیں کہ فرانس کو اپنے ہاں غیر قانونی تارکین وطن کی آمد کو روکنے کے لیے سخت اقدامات اٹھانا ہوں گے۔

یورپی ملک ہالینڈ کی سیاست میں بھی گزشتہ اختتام ہفتہ پر ایک اہم موڑ آیا جب انتہائی دائیں بازو کے اسلام مخالف سیاست دان گیئرٹ وِلڈرز نے حکومت کے بچتی اقدامات کی مخالفت کر دی، جس کے نتیجے میں حکومت پارلیمان میں اپنی اکثریت کھو بیٹھی اور مستعفی ہو گئی۔

گیئرٹ وِلڈرز نہ صرف ہالینڈ بلکہ یورپ بھر میں مسلمان تارکین وطن کی آمد کے سخت خلاف ہیں۔ انہوں نے ایک انٹرویو میں جرمنی کو بھی اس خطرے سے خبردار کرتے ہوئے کہا تھا: ’اسلام کے سیاسی نظریے کی وجہ سے جرمنی کی قومی شناخت، جمہوریت اور اقتصادی خوشحالی خطرے میں ہے۔‘

Niederlande Prozeß gegen Gert Wilders in Amsterdam
ہالینڈ میں انتہائی دائیں بازو کے سیاستدان گیئرٹ ولڈرز یورپ میں مسلمان تارکین وطن کی آمد کے سخت خلاف ہیںتصویر: AP

یورپ میں دائیں بازو کے خطرے کی ایک شکل ناروے میں جنونی قاتل آندرس بیہرنگ بریوِک کے ہاتھوں گزشتہ برس بائیں بازو کے ستتر افراد کے قتل کی شکل میں نظر آئی تھی۔ بریوک کا بھی یہ کہنا تھا کہ وہ یورپ میں اسلامی تارکین وطن کا سخت مخالف ہے۔

اسی تناظر میں انسانی حقوق کے عالمی ادارے ایمنسٹی انٹرنیشنل کی ایک رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ یورپ میں آباد مسلمانوں کو ملازمتوں اور تعلیم کے شعبوں میں امتیازی سلوک کا سامنا ہے اور یورپی حکومتیں اور ادارے اس کے انسداد کے اقدامات اٹھائیں۔

رپورٹ: حماد کیانی

ادارت: امجد علی