1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

کوبانی میں اسلامی ریاست کو بھاری جانی نقصان

ندیم گِل20 اکتوبر 2014

شام میں ترکی کے ساتھ ملحق علاقے کوبانی میں لڑائی کے دوران اسلامی ریاست کے جہادیوں کو بھاری جانی نقصان کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔

https://p.dw.com/p/1DYVf
تصویر: Reuters/K. Pfaffenbach

امریکی سینٹرل کمانڈ کے مطابق ہفتے اور اتوار کو کوبانی کے قریب شدت پسندوں پر گیارہ فضائی حملے کیے گئے ہیں۔ یہ حملے جہادیوں کے خلاف پیش قدمی میں کرد فائٹروں کے لیے مددگار ثابت ہو رہے ہیں۔

خبر رساں ادارے اے ایف پی کے مطابق کوبانی کے کرد محافظوں کو ایک ماہ سے زائد عرصے سے اسلامی ریاست (آئی ایس) کے حملوں کا سامنا ہے۔ ایک کرد اہلکار ادریس نہسن کا کہنا ہے کہ کوبانی کی سڑکوں پر لڑائی جاری ہے جہاں جہادیوں نے کم از کم دو خود کش دھماکے بھی کیے ہیں۔ تاہم انہوں نے بتایا کہ اتوار تک بھی فرنٹ لائن میں کوئی تبدیلی نہیں آئی ہے۔

نہسن نے ٹیلی فون پر اے ایف پی کو بتایا کہ آئی ایس مزید جہادیوں کو وہاں لے آئی ہے اور اس نے بڑی قوت سے حملہ کیا ہے۔ تاہم انہوں نے کہا: ’’لیکن فضائی حملوں کی بدولت اور (کرد فائٹروں کے) جوابی حملوں سے وہ کوئی پیش رفت نہیں کر پائے ہیں۔‘‘

Syrien Kämpfe um Kobane 19.10.2014
جہادی کرد فائٹروں کو زیر کرنے میں ناکام ہےتصویر: picture-alliance/AA/M. Kula

کوبانی کی اس لڑائی میں جہادیوں کے بھاری نقصان کے حوالے سے سیریئن آبزرویٹری فار ہیومن رائٹس کے مطابق ہفتے سے اتوار کی صبح تک اس جنگ میں اکتیس جہادی مارے گئے ہیں۔ آبزرویٹری کا کہنا ہے کہ ان میں سے پندرہ فضائی حملوں کا نشانہ بنے جبکہ سولہ کرد فائٹروں کے ساتھ لڑائی میں جان سے گئے۔ اس کے مطابق اس دوران سات کرد فائٹر بھی ہلاک ہوئے۔

اس سے پہلے کرد فورسز نے اسلامی ریاست کے جہادیوں کی جانب سے شام کے قصبے کوبانی کا ترکی سے سرحدی رابطہ کاٹنے کی تازہ کوشش ناکام بنا دی تھی۔

وائٹ ہاؤس کی جانب سے اتوار کو جاری کیے گئے ایک بیان کے مطابق صدر باراک اوباما نے اپنے ترک ہم منصب رجب طیب ایردوآن سے بات کی ہے اور ان دونوں نے شام میں آئی ایس کے خلاف ’تعاون مستحکم‘ کرنے کا عزم ظاہر کیا ہے۔

تاہم امریکی سینٹرل کمانڈ نے قبل ازیں جہادیوں کے خلاف ’حوصلہ افزاء‘ پیش رفت کا تذکرہ کرتے ہوئے خبردار بھی کیا تھا کہ ان کے فضائی حملےکوبانی کو شاید جہادیوں کو ہاتھوں میں جانے سے نہ بچا سکیں۔ اس کا کہنا ہے کہ اس کی ترجیح اسلامی ریاست کے خلاف عراق میں جاری مہم ہے۔

دوسری جانب امریکی وزیر خارجہ جان کیری کا کہنا ہے کہ عراق میں ہفتوں کی تاخیر کے بعد وزیر داخلہ اور وزیر دفاع کی تقرریاں آئی ایس کے خلاف لڑائی کے لیے ’بہت ہی مثبت پیش رفت‘ ہے۔‘‘