1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

چھ سو آسٹریلوی فوجی مشرق وسطیٰ بھیجنے کا فیصلہ

عصمت جبیں14 ستمبر 2014

آسٹریلیا وہ پہلا ملک بن گیا ہے جس نے اسلامک اسٹیٹ کے خلاف امریکا کی سربراہی میں بنائے جانے والے اتحاد میں شامل ریاست کے طور پر مشرق وسطیٰ بھیجے جانے والے اپنے فوجی دستوں اور جنگی ہوائی جہازوں کی تفصیلات ظاہر کر دی ہیں۔

https://p.dw.com/p/1DC1C
تصویر: Getty Images

واشنگٹن کی قیادت میں یہ بین الاقوامی عسکری اتحاد عراق میں اسلامک اسٹیٹ کے جہادیوں کے خلاف کارروائیاں کرے گا۔ اس اتحاد کے قیام کا فیصلہ امریکا نے کیا تھا تاکہ دہشت گردی کے خطرات سے نمٹا جا سکے۔

آسٹریلیا کے وزیر اعظم ٹونی ایبٹ نے آج اتوار 14 سمتبر کو کہا کہ آسٹریلیا اس اتحاد میں شمولیت کے لیے اپنے چھ سو فوجی بھیجے گا جو متحدہ عرب امارات میں ایک امریکی فوجی اڈے پر تعینات کیے جائیں گے۔

ٹونی ایبٹ کے مطابق ان میں آسٹریلوی فضائیہ کے 400 اہلکار اور اسپیشل فورسز کے 200 ارکان شامل ہوں گے۔

Tony Abbott Premierminister Australien
آسٹریلوی وزیر اعظم ٹونی ایبٹ نے اس اتحاد میں شمولیت کے لیے اپنے چھ سو فوجی بھیجے کا اعلان کیاتصویر: picture-alliance/dpa

اسلامک اسٹیٹ کے خلاف اتحاد کی امریکی صدر باراک اوباما کی اپیل پر اب تک کئی ملک اپنے مثبت ردعمل کا اظہار کر چکے ہیں۔ لیکن آسٹریلیا وہ پہلا ملک ہے جس نے اس اتحاد میں اپنی شمولیت کی عسکری تفصیلات ظاہر کی ہیں۔

ٹونی ایبٹ کے بیان کے مطابق آسٹریلیا اس مشن کے لیے جنگی طیارے اور دوسرے فوجی ہوائی جہاز بھی بھیجے گا جو امریکا کی سربراہی میں اسلامک اسٹیٹ کے جہادیوں کے خلاف فضائی حملوں میں حصہ لیں گے۔ ٹونی ایبٹ کے بقول اس مشن میں شامل آسٹریلوی جنگی طیاروں کی تعداد آٹھ ہو گی۔

ٹونی ایبٹ نے شمالی آسٹریلیا کے شہر ڈارون میں صحافیوں کو بتایا کہ انہوں نے اپنے ہم وطنوں کو خبردار کر دیا ہے کہ ملکی فوجیوں کی اس تعیناتی کے نتیجے میں انہیں اسلامک اسٹیٹ کے عسکریت پسندوں کے خلاف جنگی کارروائیوں میں بھی حصہ لینا پڑ سکتا ہے۔ تاہم انہوں نے ساتھ ہی یہ بھی واضح کر دیا کہ آسٹریلیا شام میں جہادیوں کے خلاف کیے جانے والے کسی بھی آپریشن میں شامل ہونے کا کوئی ارادہ نہیں رکھتا۔

اس دوران امریکی وزیر خارجہ جان کیری اسلامک اسٹیٹ کے جہادیوں کے خلاف بین الاقوامی اتحاد کی کوششوں کے سلسلے میں مشرقی وسطیٰ کی مختلف ملکوں کا اپنا دورہ جاری رکھے ہوئے ہیں۔ اب تک دس عرب ریاستیں مربوط فوجی مہم کی حمایت کر چکی ہیں ۔ ان میں مصر، عراق، اردن اور لبنان کے علاوہ خلیج کی چھ عرب ریاستیں بھی شامل ہیں۔

Irak USA Außenminister John Kerry in Bagdad
امریکی وزیر خارجہ جان کیری اسلامک اسٹیٹ کے جہادیوں کے خلاف بین الاقوامی اتحاد کی کوششوں کے سلسلے میں مشرق وسطیٰ کے مختلف ملکوں کا اپنا دورہ جاری رکھے ہوئے ہیںتصویر: Reuters/B. Smialowski

اب تک مغربی دفاعی اتحاد نیٹو کے رکن ملکوں میں سے ترکی جیسی ریاستوں کی اس اتحاد میں شمولیت اور ان کے کردار کی تفصیلات واضح نہیں ہیں۔ ترکی اس اتحاد میں صف اول کے ملک کا کردار ادا کرنے سے ہچکچا رہا ہے۔

برطانیہ نے کہا ہے کہ وہ بھی اسلامک اسٹیٹ کے جہادیوں کے خلاف امریکی فضائی حملوں کا حامی ہے۔ برطانوی وزیر اعظم ڈیوڈ کیمرون بار بار کہہ چکے ہیں کہ لندن حکومت عراق میں اپنے زمینی فوجی دستے تو نہیں بھیجے گی لیکن اس بین الاقوامی اتحاد میں برطانیہ کی طرف سے کسی بھی طرح کی دوسری شمولیت کو خارج ازامکان قرار نہیں دیا جا سکتا۔

دوسری جانب اسلامک اسٹیٹ نے برطانوی شہری ڈیوڈ ہینز کا سر قلم کر دیا ہے۔ اس عسکری گروہ کے مطابق اگر برطانوی وزیر اعظم ڈیوڈ کیمرون آئی ایس کے خلاف امریکی اتحاد میں شامل نہ ہوتے تو اس برطانوی امدادی کارکن کو قتل نہ کیا جاتا جبکہ برطانوی وزیر اعظم ڈیوڈ کیمرون نے امدادی کارکن ڈیوڈ ہینز کے قتل کو ’شیطانی عمل‘ قرار دیا ہے۔ کیمرون نے کہا کہ جتنا بھی وقت لگ جائے ڈیوڈ ہینز کے قاتلوں کو ڈھونڈ نکالیں گے اور ذمہ داروں کو سزا دی جائے گی۔ گزشتہ ہفتوں کے دوران آئی ایس نے مغربی ممالک سے تعلق رکھنے والے تیسرے مغوی کا سر قلم کیا ہے۔ اس سے قبل دو امریکی صحافیوں کو بھی اسی انداز میں قتل کیا جا چکا ہے۔

امریکا نے عراق میں اسلامک اسٹیٹ کے فائٹرز اور ان کے ٹھکانوں پر فضائی حملوں کا آغاز اگست کے شروع میں کیا تھا اور اب تک امریکی جنگی طیاروں سے ان جہادیوں کے خلاف ڈیڑھ سو سے زائد فضائی حملے کیے جا چکے ہیں۔

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں

اس موضوع سے متعلق مزید