1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں
کھیلافغانستان

پیرس اولمپکس: افغان کھلاڑی کا افغانستان پر پابندی کا مطالبہ

20 اپریل 2024

اولمپکس میں افغانستان کی نمائندگی کرنے والی پہلی خاتون کھلاڑی نے یہ مطالبہ طالبان کی جانب سے خواتین پر عائد پابندیوں کے تناظر میں کیا ہے۔

https://p.dw.com/p/4f06q
اولمپکس میں افغانستان کی نمائندگی کرنے والی پہلی خاتون کھلاڑی فریبہ رضائی
اولمپکس میں افغانستان کی نمائندگی کرنے والی پہلی خاتون کھلاڑی فریبہ رضائیتصویر: Darryl Dyck/empics/picture alliance

اولمپکس میں افغانستان کی نمائندگی کرنے والی پہلی خاتون کھلاڑی فریبہ رضائی نے کابل میں طالبان کے اقتدار میں آنے کے بعد  سے ملک میںخواتین پر عائد پابندیوںکے تناظر میں مطالبہ کیا ہے کہ ہندو کش کی اس ریاست کو اس سال پیرس میں ہونے والے اولمپک مقابلوں میں حصہ نہ لینے دیا جائے۔

فریبہ رضائی، جو اب کینیڈا میں مقیم ہیں، جوڈو کی کھلاڑی ہیں اور انہوں نے 2004ء کے اولمپک مقابلوں میں افغانستان کی نمائندگی کی تھی۔

خبر رساں ادارے روئٹرز سے گفتگو کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ افغانستان میں بر سر اقتدار طالبان کا انسانی حقوق کے حوالے سے ریکاڑد خراب رہا ہے اور اس لیے انٹرنیشنل اولمپک کمیٹی (آئی او سی) کو اس سال فرانس میں ہونے والے مقابلوں میں افغانستان کی شرکت پر پابندی لگا دینا چاہیے۔ تاہم انہوں نے یہ بھی کہا کہ افغان خواتین کو مہاجرین کی اولمپک ٹیم میں شامل کر کے انہیں ان کھلیوں میں شرکت کا موقع دیا جانا چاہیے۔

آئی او سی کے مطابق مہاجرین کی اولمپک ٹیم میں شمولیت کے لیے اقوام متحدہ سے کھلاڑیوں کے مہاجر ہونے کی تصدیق ہونا ضروری ہے۔

فریبہ کا مزید کہنا تھا، ''طالبان کے خواتین اور بچوں کے ساتھ ظالمانہ سلوک کے پیش نظر وہ بہت خطرناک ہیں۔ اگر آئی او سی ان کو یورپ کے مرکز، پیرس میں 2024ء میں ہونے والے اولمپکس میں شرکت کی اجازت دیتی ہے، تو یہ افغان باشندوں کے لیے بہت خطرناک ہو گا۔‘‘

طالبان کے دو سالہ دورِ اقتدار میں خواتین کو درپیش مسائل

روئٹرز نے اس معاملے پر افغان طالبان کا موقف جاننے کے لیے ان کے ترجمان ذبیح اللہ مجاہد سے بھی رابطہ کیا لیکن انہوں نے کوئی بیان دینے سے انکار کر دیا۔

خواتین کے حقوق کے حوالے سے طالبان کا موقف یہ رہا ہے کہ وہ اسلامی قوانین اور مقامی روایات کے مطابق ان کا احترام کرتے ہیں۔ تاہم اگست 2021ء میں دوبارہ اقتدار سنبھالنے کے بعد سے طالبان نے افغانستان میں لڑکیوں کے ہائی اسکول بند کر دیے ہیں اور خواتین پر بغیر کسی مرد سرپرست کے سفر کرنے اور پارکوں اور فٹنس کلبوں میں جانے پر بھی پابندیاں عائد کی جا چکی ہے۔

روئٹرز نے فریبہ رضائی کے مطالبے سے متعلق آئی او سی سے بھی رابطہ کیا، جس پر اس کمیٹی نے 'نیشنل اولمپک کمیٹی ریلیشنز اینڈ اولمپک سالیڈیرٹی‘ کے ڈائریکٹر جیمز میکلوڈ کے گزشتہ ماہ دیے گئے ایک بیان کا حوالہ دیا۔

افغان ٹیم کی 2020ء میں ہونے والے ٹوکیو اولمپکس میں شرکت
افغان ٹیم کی 2020ء میں ہونے والے ٹوکیو اولمپکس میں شرکتتصویر: Matthias Hangst/Getty Images

اس بیان میں میکلوڈ نے کہا  تھا کہ آئی او سی اور افغانستان کی نیشنل اولمپک کمیٹی اور متعلقہ حکام کے مابین مذاکرات جاری ہیں، جن کا مقصد افغانستان میں خواتین اور لڑکیوں پر کھیلوں کے حوالے سے عائد پابندیوں کا خاتمہ ہے۔

انہوں نے مزید کہا تھا کہ آئی او سی کو افغانستان کی نیشنل اولمپک کمیٹی کو معطل کرنے سے متعلق مختلف آراء کا ادارک ہے لیکن آئی او سی کو ''نہیں لگتا کہ اس وقت افغانستان کے کھلاڑیوں کی برادری کو تنہا کرنا درست ہو گا۔‘‘

م ا/م م (روئٹرز)