1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

افغانستان: لڑکیوں کی تعلیم کے خلاف کارروائیوں میں اضافہ

31 اکتوبر 2023

طالبان نے مطیع اللہ ویسا کو رہا کر دیا ہے، جنہیں لڑکیوں کی تعلیم کے حقوق کی وکالت کرنے پر قید کر دیا گیا تھا۔ تاہم عسکریت پسند گروپ افغانستان میں خواتین اور لڑکیوں کے خلاف ظلم و ستم کو بڑھاتا جا رہا ہے۔

https://p.dw.com/p/4YDk1
مطیع اللہ ویسا
مطیع اللہ ویسا کا تعلق جنوبی صوبے قندھار سے ہے، جن کا کہنا ہے کہ دیہی علاقوں میں رہنے والے بہت سے افغانوں کو تعلیم تک رسائی نہیں ہےتصویر: Siddiqullah Khan/AP Photo/picture alliance

گزشتہ ہفتے افغانستان میں لڑکیوں کی تعلیم کے حقوق کی وکالت کرنے والے کارکن مطیع اللہ ویسا کو رہا کر دیا گیا، جو سات ماہ سے سلاخوں کے پیچھے تھے۔ تاہم ابھی تک یہ واضح نہیں ہو سکا ہے کہ طالبان نے ویسا کو کیوں رہا کیا۔ خود ویسا نے بھی میڈیا سے بات نہیں کی۔

طالبان نے درجنوں خواتین اسٹوڈنٹس کو دبئی جانے سے روک دیا

مطیع اللہ کے بھائی عطا اللہ ویسا نے ڈی ڈبلیو کو بتایا کہ طالبان نے مارچ میں ان کے گھر پر چھاپہ مارا تھا اور اسی وقت مطیع اللہ کو کابل میں ایک مسجد سے نکلتے ہوئے گرفتار کیا گیا تھا۔ انہوں نے یہ بھی بتایا کہ طالبان نے ویسا اور خاندان پر ''جاسوسی'' میں ملوث ہونے کا الزام لگایا۔

افغانستان میں طالبان کا 'امریکی قبضے سے آزادی' کا جشن

اگست سن 2021 میں طالبان کے افغانستان پر قبضے کے بعد ہی اس سخت گیر اسلام پسند گروپ نے ملک کی خواتین اور لڑکیوں کے حقوق کی ہر طرح کی علامات کو ختم کرنا شروع کر دیا تھا۔

طالبان کے افغانستان کے دو برس: کیا بدلا، کیا نہیں؟

سن 2022 میں طالبان نے لڑکیوں کو ثانوی اسکول اور یونیورسٹی میں جانے سے روک دیا، اور اس طرح افغانستان خواتین کو تعلیم دینے کے حوالے سے دنیا کے سب سے زیادہ پابندی والے ممالک میں سے ایک بن گیا۔ طالبان کا دعویٰ ہے کہ وہ لڑکیوں اور لڑکوں کے لیے الگ الگ کلاسوں کا انتظام کرنے کے بعد لڑکیوں کے لیے اسکول اور یونیورسٹیاں کھولیں گے۔

طالبان نے افغانستان میں قائم ہزاروں بیوٹی پارلر بند کر دیے

'ہمارے خلاف پروپیگنڈا'

سن 2009 میں ویسا نے 'پین پاتھ' کے نام سے ایک تنظیم کی بنیاد رکھی تھی، جس نے افغانستان، خاص طور پر ملک کے دیہی اور قدامت پسند علاقوں، میں لڑکیوں کی تعلیم کو فروغ دینے کے لیے کام کیا۔

'افغان خواتین پر پابندی کے سبب طالبان کو تسلیم کرنا ناممکن'

مطیع اللہ ویسا کا تعلق جنوبی صوبے قندھار سے ہے، جن کا کہنا ہے کہ دیہی علاقوں میں رہنے والے بہت سے افغانوں کو تعلیم تک رسائی نہیں ہے۔

Sacharow-Preis 2023 Kandidaten/Parasto Hakim
ہیومن رائٹس واچ میں خواتین کے حقوق کے شعبے کی ایسوسی ایٹ ڈائریکٹر ہیتھر بار نے ڈی ڈبلیو کو بتایا کہ طالبان کی جانب سے خاص طور پر خواتین اور لڑکیوں کے خلاف پابندیاں جاری ہیںتصویر: Yaghobzadeh Alfred/abaca/picture alliance

طالبان کے قبضے سے پہلے اور بعد میں بھی پین پاتھ قبائلی عمائدین سے ملاقاتیں کرنے کے ساتھ ہی حکام کو اسکول کھولنے، کتابیں تقسیم کرنے اور پورے افغانستان میں موبائل لائبریریوں کی تعمیر میں مدد کرنے جیسے کام کرتا رہا ہے۔

جب ویسا کو گرفتار کیا گیا تو طالبان کی حکومت نے اپنے سوشل میڈیا اکاؤنٹ کی پوسٹوں میں اس پر  ''غیر اسلامی'' اور ''غیر اخلاقی'' رویے کا الزام لگایا گیا۔ اس میں خواتین کے ساتھ انار کھاتے ہوئے ان کی ایک تصویر بھی شامل کی گئی تھی۔

جبکہ خزاں کے آخر میں انار پھل سے متعلق صوبہ قندھار میں ایک میلے کی قدیم روایت رہی ہے۔ کابل میں ویسا اور پین پاتھ نے یہ تہوار مرد اور خواتین رضاکاروں کے ساتھ منایا تھا۔ عطاء اللہ ویسا نے کہا کہ ''وہ تمام تصاویر ہمارے سوشل میڈیا پیجز پر پہلے بھی شیئر کی گئی تھیں اور انہوں نے وہ تصاویر ہمارے خلاف پروپیگنڈے کے لیے کھینچی تھیں۔''

طالبان میں کوئی تبدیلی نہیں

سن 2021 میں امریکی اور بین الاقوامی افواج کے انخلاء کے بعد افغانستان پر دوبارہ قبضہ کرنے کے بعد سے طالبان نے درجنوں کارکنوں، ماہرین تعلیم اور صحافیوں کو گرفتار کیا ہے۔

ہیومن رائٹس واچ میں خواتین کے حقوق کے شعبے کی ایسوسی ایٹ ڈائریکٹر ہیتھر بار نے ڈی ڈبلیو کو بتایا کہ طالبان کی جانب سے خاص طور پر خواتین اور لڑکیوں کے خلاف پابندیاں ''جاری ہیں۔''

ان کا کہنا تھا، ''وہ حقوق کی نئی خلاف ورزیاں مسلط کرتے رہتے ہیں۔'' انہوں نے مزید کہا کہ دنیا کی توجہ اس وقت کسی اور جگہ مرکوز ہے اور طالبان ''اپنی زیادتیوں کو جاری رکھنے اور مزید سخت کرنے میں اپنے آپ کو آزاد محسوس کرتے ہیں۔''

انہوں نے جیل سے فرانسیسی افغان صحافی مرتضیٰ بہبودی کی حالیہ رہائی کا حوالہ دیتے ہوئے کہا، ''مجھے نہیں لگتا کہ ہمیں ان دو رہائیوں میں طالبان میں کسی قسم کی تبدیلی کو پڑھنا چاہیے۔''

ہیتھر بار نے کہا، ''وہ اب بھی خواتین کے حقوق کے لیے مظاہرہ کرنے والے بہت سے کارکنان کو غیر قانونی طور پر حراست میں لے رہے ہیں۔ انہیں بھی فوراً رہا کر دینا چاہیے۔''

ص ز/ ج ا (خدائی نور ناصر، کابل)

افغانستان میں صنفی تعصب کے خلاف جرمنی میں بھوک ہڑتال